سرد جنگ کے بعد افغانستان بدامنی کا شکار ہوا اور کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ تاہنوزجاری ہے، نائن الیون کے بعد حالات مزید گھمبیر ہوتے چلے گئے عالمی طاقتوں کا گمان تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد خطے میں ان کی گرفت مضبوط ہوگی مگر اس کا ردعمل کچھ اور ہی نکلا ، کئی دہائی بیت چکے اب تک افغانستان میں امن وامان کی صورتحال ابتر ہے جس کی ذمہ دارعالمی طاقتیں ہے لیکن اس کا ملبہ ہمیشہ پاکستان پر ڈالا جاتا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔
دنیا کے طاقتور ممالک نے اس خطے میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کیلئے ایک بڑاگیم کھیلاجس کے نتائج انہیں حاصل نہیں ہوئے جن کی امید ان کو زیادہ تھی، بجائے کسی پُرامن حل کا راستہ تلاش کرنے کے انہوں نے طاقت کا استعمال مزید بڑھا دیا اور پوری قوت کے ساتھآکاروائیوں پر کاروائیاں کرتے رہے جس کے باعث افغان باشندوں کے دلوں میں نفرتیں پیدا ہوئیں اور اس طرح وہاں موجود شدت پسند تنظیمیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔
افسوس کہ آج تک امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کا پُرامن اور سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے طاقت کو ہی ترجیح دے رہے ہیں جوکہ اس خطے میں مزید تشدد کو پروان چڑھائے گا۔ افغانستان میں بدامنی کے برائے راست اثرات پاکستان پڑے جس کی وجہ سے آج بھی بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین موجودہیں جو اس وقت یہاں کے معاشی، سیاسی وسماجی حالات پر اثرانداز ہورہے ہیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے بلوچستان میں اپنے لیے نہ صرف پاکستانی شناختی کارڈ بنوائے ہیں بلکہ دیگر قومی دستاویزات بھی بنارکھے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان شدید متاثر ہوکر رہ گیا ہے ، بلوچستان میں بدامنی کی بھی سب سے بڑی وجہ یہی غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں دہشت گردی پھیلانے میں ملوث پائے گئے ہیں ۔
اس طرح مالی، جانی نقصانات سمیت دیگر مسائل نے بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تعاون کی درخواست کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کو امریکی صدر کا خط کل موصول ہوا ہے جس میں انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے افغانستان میں قیام امن کے لیے مدد کی درخواست کی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے لئے ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔ نفرتیں ختم کرنے کے لیے کرتارپور بارڈر کھولا،ان کا کہنا تھا کہ ہم مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے لیے تیار ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خط پر وزارت خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے امریکی صدر کی کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے سیاسی حل پر زور دیا ہے جبکہ پاکستان امن مذاکرات کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کو بھی تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔امریکی صدر کے خط کے جواب میں پاکستان کی جانب سے مثبت پیغام واضح ثبوت ہے کہ آج بھی پاکستان افغانستان کے مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کیلئے ہر قسم کا تعاون کرنے کو تیار ہے کیونکہ طاقت کے استعمال سے مالی نقصانات کے علاوہ بڑے پیمانے پر انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں ہیں جس کا موازنہ کسی طور پر امداد سے نہیں کیاجاسکتا۔
بلوچستان اس جنگ کے دوران اس قدر متاثر ہوکر رہ گیا ہے کہ یہاں کی روایات تک کو پامال کردیا گیا ہے، شدت پسندی، فرقہ واریت نے فروغ پایا جو کبھی یہاں کی تاریخ کا حصہ نہیں رہامگر اس جنگ کے برائے راست اثرات یہاں پڑے ہیں اور لاکھوں مہاجرین آج بھی بلوچستان پر بوجھ بنے ہوئے ہیں ۔
افغانستان میں جلد امن قائم ہوجائے تاکہ یہاں سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی یقینی ہوسکے کیونکہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام کی یہی خواہش ہے کہ افغانستان کا مسئلہ جلد حل ہوجائے تاکہ بلوچستان میں ایک بار پھر خوشحالی اور امن کا دورآسکے۔