|

وقتِ اشاعت :   December 10 – 2018

بلوچستان میں شاید ہی کوئی ایسا ادارہ ہو جو یہاں کے عوام کوکوئی ریلیف فراہم کر رہا ہو۔بلوچستان کے ساتھ ناروا طرز حکمرانی کی طویل داستان ہے،یہاں کے و سائل کے سوا وفاق اور وفاقی ادارروں کی دلچسپی کامرکز بلوچستان کبھی رہا ہی نہیں ، یہاں کے وسائل سے وفاق برائے راست فائدہ اٹھارہاہے لیکن یہاں کے لوگ کس حال میں جی رہے ہیں یا مر رہے ہیں، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں۔ 

وفاق اور کمپنیاں صرف اپنے مفادات کا تحفظ کرتے آئے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جہاں اربوں روپے کافائدہ اٹھایاجارہا ہے انہی علاقوں میں انسانی وسائل پر بھی کچھ رقم خرچ کی جائے ، لیکن ایسا کرنے پر انہیں کون پابند کرے کیونکہ طاقت اور اختیار تو انہی کے پاس ہے، یہاں سے صرف التجا ہی کی جاسکتی ہے جو گزشتہ ستر سالوں سے کی جارہی ہے مگر حکومتوں اور کمپنیوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

ہاں دکھاوے کے لیے بلوچستان کی محرومیوں کے خاتمے کے دعوے ہر دور میں کئے گئے، چاہے وہ جمہوری حکومتیں ہوں یا فوجی، لیکن وہ وعدے ہی کیا جو کبھی وفا ہوں اور وہ بھی بلوچستان کے حوالے سے۔ گزشتہ مسلم لیگ ن کی حکومت جب مرکز میں بنی تو بڑے بڑے دعوے اور اعلانات کئے گئے۔ 

حکومتی مدت پوری ہونے سے چند ماہ قبل سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور کہاکہ ہماری حکومت نے بلوچستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے اب آنے والے وقت میں یہاں کی محرومیوں کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا اور جب تک وزیراعظم کے منصب پر بیٹھا ہوں کوئٹہ کا دورہ کرتا رہونگا ، لیکن یہ ان کا بطور وزیراعظم پہلا اور آخری دورہ ثابت ہوا اس کے بعد پیچھے مڑ کر انہوں نے اس جانب دیکھا ہی نہیں۔

اسی طرح مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف جب نااہل ہوئے تب انہیں بلوچستان یاد آیا اور اپنے اتحادی جماعت پشتونخواہ میپ کے ایک جلسہ میں بطور مہمان خاص شرکت کیلئے کوئٹہ تشریف لائے تو انہوں نے اپنی نااہلی کا رونا رویا اور نظریاتی سیاست پر پُرجوش تقریر کیوہیں ۔

بلوچستان کے مظلوم اورپسماندہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے راولپنڈی، اسلام آباد اور لاہور کی ترقی کی مثالیں دینے لگے کہ ان کے بھائی شہباز شریف اور انہوں نے پنجاب کے بڑے شہروں میں ترقی کے ریکارڈ توڑ دیئے۔

شاید میاں نواز شریف یہ بھول گئے تھے کہ وہ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں اور ان کی ترقی کے دعوے پنجاب ہی تک کیوں محدود ہیں۔ ظلم خدا کا بلوچستان کی سوئی گیس نے پورے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کیں مگربلوچستان کے بڑے شہر آج بھی اس سے محروم ہیں۔

پورے ملک کو گیس مل گئی مگر بلوچستان کے بیشتر علاقوں کیلئے گیس آج بھی میسر نہیں، کسی بھی وزیراعظم کو یہ دلچسپی کبھی بھی نہیں رہی کہ ان علاقوں کو گیس فراہم کی جائے، سوئی گیس سے پاکستان نے 400 ارب ڈالر کی بچت کی ہے،اگر سوئی گیس نہ ہوتی تو پاکستان کو تیل درآمد کرناپڑتا جس پر 400 ارب ڈالر کا اضافی بوجھ پڑجاتا یعنی سوئی گیس نے گزشتہ ساٹھ سالوں میں کئی کھرب ڈالر کا معاشی اور مالی فائدہ پہنچایا مگر اس کے بدلے بلوچستان کو کیا ملا۔

آج بھی بلوچستان کے سرد علاقے جہاں گیس دستیاب ہے تو وہاں پریشر بالکل ہی نہیں اور ساتھ ہی طویل لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 

بلوچستان کے حوالے سے پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے نئی حکومت بلوچستان کو اس کا جائزمقام اور حق دے تاکہ بلوچستان کے عوام کم ازکم بنیادی سہولیات سے محروم نہ رہیں۔ 

بلوچستان کے سرد علاقوں میں گیس عیاشی نہیں ضرورت ہے ،یہاں خون جمادینے والی سردی پڑتی ہے اور شاید اسی لیے قدرت نے اس نعمت کو یہاں پیدا کیا لیکن یہ نعمت یہاں کے باسیوں کو میسر نہیں۔اسے استحصال کہا جائے یا کچھ اور ،بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ بلوچستان کی گیس بلوچستا ن کومیسر نہیں۔