کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کے لیے امن اولین شرط ہے ،ہمارے ہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک جنگی ماحول رہا ہے جس سے صرف افغانستان متاثر نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے برائے راست پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
نائن الیون کے بعد پاکستان نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے ہوئے اس جنگ میں حصہ لیا مگر اس کے باوجود پاکستان کو امریکہ اور ان کے اتحادیوں نے وہ مقام نہیں دیا جس طرح سے بھارت کو اہمیت دی گئی جس کی مثال وہاں پر امریکہ اورمغربی ممالک کی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہے ۔
بھارت کو اس طرح نوازنا اور پاکستان کے خلاف الزام تراشی کسی طرح بھی منصفانہ رویہ نہیں، پاکستان نے اس جنگ میں حصہ لیکرنقصان ہی اٹھایالیکن اس کے باوجوداس کی ہمیشہ خواہش رہی کہ کسی طرح خطے میں امن قائم ہوجائے اور افغانستان کا دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے تاکہ یہاں استحکام آسکے۔
گزشتہ روزوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو امریکہ کیساتھ تعلقات میں تناؤ تھا اور اب امریکہ وہی بات کہہ رہا ہے جو تحریک انصاف اور عمران خان کہتے آئے ہیں ٗ افغان طالبان کو ہتھیار پھینک کر امن کا راستہ اختیار کر نا ہوگا۔
عمران خان کو طالبان خان کہا جاتا تھا آج تمام قوتیں اس بات پر متفق ہوگئی ہیں کہ مصالحتی عمل ہی بہترین راستہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں افغانستان میں تمام فریق مل کر بیٹھیں ،پاکستان صرف معاونت فراہم کرے گا۔معاونت سے متعلق بات کو واضح کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی معاونت کا مقصد افغانستان میں امن کا قیام ہے کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں امن نہیں ہوگا تو پاکستان بھی اس سے متاثر ہوگا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکہ نے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی، افغان حکومت جو طالبان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تھی وہ ماسکو میں افغان طالبان کے ساتھ بیٹھی۔انہوں نے بتایا کہ امریکہ نے افغان مفاہمتی عمل کیلئے زلمے خلیل زاد کو اپنا فوکل پرسن نامزد کیا ہے ٗ ابھی حال ہی میں زلمے خلیل تشریف بھی لائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک افغانستان میں امن واستحکام نہیں ہوگا پاکستان بھی متاثر ہوگا۔ پاکستان کہہ رہا تھا کہ افغان تنازع طاقت سے حل نہیں ہوسکتا، اگر امریکا افغانستان میں دیرپا امن دیکھنا چاہتا ہے تو وہاں موجود حکومت اور دیگر افغانیوں کے درمیان سیاسی معاہدے کرنے ہوں گے اور ان کے درمیان مصالحت اور مفاہمت کی کوشش بھی کرنی ہوگی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ معیشت کئی دہائیوں کے مسائل کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے ٗ اگر یہ تاثر ہے کہ معاشی مسائل تین ماہ میں پیدا ہوئے ہیں تو یہ غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ برآمدات بہتر ہورہی ہیں،مالی مسائل سے نکلیں گے تو روپیہ مستحکم ہوگا، ہم بہتری کی کوشش کر رہے ہیں ٗ ہماری سعودی عرب، یو اے ای، چین اور ملائیشیا میں اچھی نشستیں ہوئی ہیں۔
اس بات پر پہلے بھی زور دیا گیا تھا کہ افغانستان کے مسئلے پر افغان قیادت اور وہاں کے سیاسی قبائلی عمائدین کو اعتماد میں لیاجائے تاکہ تمام فریقین امن مذاکرات میں شامل ہوسکیں جس سے بات چیت کا راستہ ہموار ہوسکے اور ایک بہتر نتیجہ پر پہنچاجاسکے ۔
پاکستان پہلے بھی امن کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش کرچکا ہے اب پھر معاونت کیلئے تیار ہے ، امریکہ اور دنیا پاکستان کے مثبت کردارکو تسلیم کرے اور یہ جو بار بار پاکستان پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں یہ ایک غیرمناسب رویہ ہے۔ امید ہے ماضی کی روش کوپھر نہیں دہرایا جائے گا ۔ حکومت بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے بھی امریکہ سمیت عالمی برادری میں لابنگ کرے تاکہ ہمارے یہاں بیرونی سرمایہ کاری آئے اور جن معاشی چیلنجز کا سامنا کرناپڑرہا ہے ان سے نکلنے میں مد د مل سکے۔
معاشی ترقی، امن کے بغیر ناممکن
وقتِ اشاعت : December 11 – 2018