ملکی تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت رہی ہو جس نے قرض نہ لیا ہو، اپوزیشن میں بیٹھ کر تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت وقت کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا، یہ ہماری سیاسی روایات رہی ہیں۔حکومت یا اپوزیشن میں بیٹھ کر ہم نے کبھی بھی ملکی معیشت کو بہترکرنے کیلئے معاشی ماہرین سے استفادہ نہیں کیا اور نہ ہی ان کو اس قابل سمجھا کہ وہ ملک میں معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے منصوبہ بندی کریں۔
اس کی ایک اہم وجہ سیاسی رشتہ داریاں اور وفاداریاں ہیں، ہر دور میں ایسی شخصیات کو وزارتیں سونپی گئیں جو ان محکموں کے متعلق جانکاری نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی وہ اس کی زحمت کرتے کہ کم ازکم وہ اپنا مشیر سیاسی رشتہ داریوں کی بنیاد پر نہ رکھیں ۔مگر یہ کلچر اب ہماری سیاست کا حصہ بن چکا ہے جس کی تبدیلی کے کہیں بھی آثار دکھائی نہیں دیتے۔
ملک میں مالی بحران کے ذمہ دار حکمران ہی ہیں جنہوں نے ملک پر حکمرانی کی ہے۔ ایک دوسرے پرملبہ ڈالنے کی بجائے اس کی ذمہ داری قبول کرنی چائیے ۔ اور ہمیں اپنے رویوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کس نے ملک کے وسیع تر مفادات کی خاطر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر حکومت چلائی ہے یقیناًاس کا جواب نفی میں ہی آئے گا۔
گزشتہ روزغیرملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو کے دوران وزیر خزانہ اسد عمر کاکہناتھا کہ ہم نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم کی جانب سے شرائط کے انتظار سے پہلے ہی ملکی کرنسی کی قدر میں کمی، شرح سود میں اضافہ اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے جیسے اقدامات اس لیے لیے ہیں کہ ہمیں یہ ضروری لگ رہے تھے، آئی ایم ایف کی پابندیوں اور شرائط کا انتظار نہیں کیا بلکہ معیشت کی بہتری کے لیے حکومت کے پہلے سو دن کے اندر خود ہی متعدد اقدامات کیے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے حکومت کے پہلے سو دن کے اندر گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا، نئے ٹیکس لگائے، شرح سود میں اضافہ کیا اور ملکی کرنسی کی قدر میں کمی کی۔ اقتصادی اور مانیٹرنگ پالیسی اصلاحات کی، اب ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہے اور یہ ضروری نہیں کہ آئی ایم ایف اس کے بارے میں ہمیں ہدایات دے بلکہ ہم وہ خود کر رہے ہیں جو ہمارے خیال میں ہمیں کرنے کی ضرورت ہے۔
تاہم وزیر خزانہ نے تصدیق کی کہ اس وقت اصلاحات کے معاملے پر آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان اختلافات ہیں لیکن بات چیت جاری ہے جس میں اس بات پر اختلاف رائے نہیں کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اقدامات کی رفتار، ترتیب اور وسعت پر اختلاف ہے۔
آئی ایم ایف سے حاصل ہونے والے قرضوں سے چین کے قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں امریکی حکومت کے خدشات پر ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کا جواب بڑا سادہ ہے کہ ہمیں چینی قرضے کی فکر ہونی چاہیے لیکن امریکی وزیر خارجہ پومپیوکو چینی قرضے کے اپنے مسئلے پر فکرمند ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں امریکہ چین کا سب سے بڑا مقروض ہے جو کہ 13 کھرب ڈالر ہے جبکہ پاکستان پر چینی قرضہ ملک کے مجموعی بیرونی قرضوں کا دس فیصد ہے۔
امریکہ کو اپنے چینی قرضے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے اس کے ساتھ سوال کیا کہ ہم گزشتہ 30 برسوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ 12 مختلف پروگراموں میں گئے لیکن یہ سوال پہلے کیوں نہیں پوچھا گیا کہ کس ذرائع اور کس ملک نے پاکستان کو کتنا قرضہ دے رکھا ہے۔
وزیرخزانہ کامؤقف اور معاشی پالیسی پر بات اپنی جگہ مگر سب سے زیادہ زور اس بات پر دینی چاہئے کہ ملکی معیشت کو بہترکرنے کیلئے ہم اپنی برآمدات دنیا تک کیسے پہنچائیں اور مزید اس پر سرمایہ کاری کس طرح کی جائے کیونکہ جب تک عالمی مارکیٹ تک رسائی حاصل نہیں ہوگی یہ بحران اسی طرح جاری رہے گا۔
ملک میں وہ وسائل موجود ہیں جن سے معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ منافع بخش منصوبوں سے معاشی اہداف حاصل کئے جاسکتے ہیں مگر اس کیلئے معاشی پالیسی بنانے والوں کی ضرورت ہے جس کا فقدان ہمیشہ رہا ہے ہمیں اس سوچ کو پہلے ختم کرنا چاہئے کہ سیاسی بنیادوں پر ہم وزیر اور مشیر رکھیں بلکہ باصلاحیت ماہرین کی طرف رجوع کریں جس سے تبدیلی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔
معاشی بحران اور روایتی طرز حکمرانی
وقتِ اشاعت : December 13 – 2018