|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2018

سپریم کورٹ نے بلوچستان میں پینے کے پانی کی صورتحال پر کمیشن قائم کرکے دو ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بلوچستان کے علاقے بھاگ ناڑی میں پانی کے بحران سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ 

سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں بھاگ ناڑی میں پانی کے تالاب کی ویڈیو چلائی گئی، ویڈیو دیکھ کر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تالاب سے گدھوں پر پانی لے جایاجاتا ہے، حکومت بلوچستان یہ ویڈیو دیکھے، اس طرح کا پانی لوگوں کو پلارہے ہیں، یہ پانی لوگوں کو پلاکر ان کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ۔

کسی نے آر او پلانٹ نہیں لگایا۔ ڈی سی بولان نے عدالت کو بتایا کہ سارے مسائل کی وجہ علاقے میں پانی کی کمی ہے ازخود نوٹس کے بعد صوبائی کابینہ نے 7کروڑ 50 لاکھ روپے کی منظوری دے دی ہے ۔ بھاگ ناڑی کے مکین نے عدالت کو بتایا کہ ہماری حالت تھر سے بھی بدتر ہے، کوئٹہ سے ہمارا علاقہ دو سوکلومیٹر دور ہے، بھاگ ناڑی میں واٹر سپلائی اسکیم 2000 سے غیر فعال ہے، پانی کی کمی کی وجہ سے علاقہ کی آبادی دو لاکھ سے 73 ہزار رہ گئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ پانی کوصاف کریں، کم ازکم تالاب کی پانی بی ٹریٹ کردیں، بھاگ ناڑی کے علاوہ بھی کئی علاقوں میں پانی کی یہی صورتحال ہے۔ 

سپریم کورٹ نے بلوچستان میں پینے کے پانی کی صورتحال پر صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی کی سربراہی میں کمیشن قائم کرکے دو ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی ہے ،اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نے ایک ماہ میں بھاگ ناڑی میں آر او پلانٹ نصب کرنے کا بھی حکم دے دیا۔ 

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار کے صدر کو ہدایت کی کہ جہاں جہاں ایسے حالات ہیں مجھے رپورٹ بناکر دیں، کمیشن بلوچستان میں پانی کی صورتحال سے آگاہ کرے گا، کمیشن رپورٹ پر حکومت سے عملدرآمد کا ٹائم فریم لینگے۔

بلوچستان میں پانی بحران اور اس کے حل کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ صوبوں کے درمیان نہری پانی کی تقسیم کے معاہدہ پر عمل درآمد کیا جائے، اس معاہدے کی رو سے بلوچستان کو دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے مزید60 ہزار کیوسک پانی مل سکتا ہے مگر افسوس کہ آج تک یہ پانی صوبہ کو نہیں مل سکا، اس اضافی پانی کا استعمال سندھ اور پنجاب میں ہورہا ہے کیونکہ اس پانی کو بلوچستان میں استعمال میں لانے کیلئے بنیادی ڈھانچہ گزشتہ وفاقی حکومتوں نے تعمیر ہی نہیں کیا ۔

اس کیلئے ضروری وسائل تک مہیا نہیں کیے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے اور میڈیم سائز کے ڈیم تعمیر کیے جائیں، چیک ڈیم نہ ہوں کیونکہ دنیا بھر میں چیک ڈیم کا نظام مکمل ناکام ہوچکا ہے، چیک ڈیم سے زراعت کی ترقی ناممکن ہے اس لئے صوبہ سینکڑوں کی تعداد میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے چھوٹے ڈیم بنائے جس سے زیادہ سے زیادہ زمین آباد کی جاسکتی ہے، سندھ سے زیادہ بلوچستان سے سیلابی پانی بحرہ عرب میں گرتا ہے۔

60 لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی سمندر میں گرتا ہے اگر ہم اس کا ایک حصہ بھی زراعت اور دوسری ضروریات کیلئے استعمال میں لائیں تو بلوچستان میں پانی بحران پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے،گزشتہ ماہ بھی پانی کے متعلق صوبوں کے وزراء کے درمیان اجلاس منعقد ہوا جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا ۔

بلوچستان کی حکومت کی جانب سے یہ کوشش جاری ہے کہ پانی کے بحران پر مستقل بنیادوں پر قابو پایا جائے مگر اس کیلئے پنجاب اور سندھ کا خصوصی تعاون درکار ہے کہ بلوچستان کو اس کے حصہ کا پانی دیا جائے ۔

اگر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا گیا تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان میں پانی بحران کے نوٹس پریہاں کے عوام میں امید کی کرن پیدا ہوئی ہے کہ بلوچستان میں پانی بحران جو شدت اختیار کرتاجارہا ہے اس کے حل ہونے کا کوئی راستہ نکل آئے گا۔