|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2018

کوئٹہ :  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ایجنڈے کی کاپیاں بروقت نہ ملنے پر اپوزیشن اراکین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت صوبائی اسمبلی کے ایوان کو سنجیدگی سے چلانے کی کوشش کرے ۔ 

گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن اراکین نے اس بات پر شدید تشویش کااظہار کیا کہ اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے کی کاپیاں انہیں بروقت نہیں ملتیں اورمختلف محکموں سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جوابات بروقت نہیں ملتے۔ 

اجلاس میں جے یو آئی کے سید فضل آغانے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ صوبائی اسمبلی کے ایوان کو سنجیدگی سے لے اور سنجیدگی سے چلانے کی کوشش کرے ۔ پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے اس بات پر احتجاج کیا کہ ان کے پوچھے گئے سوال کا جواب انہیں وقفہ سوالات کے دوران اسمبلی سٹاف نے لاکر دیا حالانکہ یہ پہلے سے آنا اور ایجنڈے کی کاپی کا حصہ ہونا چاہئے تھا ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ اس ضمن میں اسمبلی سیکرٹریٹ نہیں بلکہ وہ محکمے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اس ایوان کو سنجیدہ فورم کے طور پر نہیں لیا انہو ں نے کہا کہ سوال و جواب احتساب اور شفافیت کا ایک اہم ذریعہ ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے محکمے اور افسران خود کو جوابدہ نہیں سمجھتے پندرہ بیس سالوں س ے ماموں بنانے کا سلسلہ جاری ہے ہم جو سوالات پوچھتے ہیں۔

ان میں80فیصد جوابات نہیںآ تے انہوں نے سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس سلسلے میں یہ رولنگ دیں کہ ہر محکمے سے جو بھی سوال پوچھا جائے وہ ایک ہفتے کے اندر اندر اس کا جواب دینے کا پابند ہوہمیں ایجنڈے آدھے گھنٹے قبل ملتاہے حالانکہ یہ ایک دن قبل ہمیں موصول ہوجانا چاہئے ۔

اسمبلی اجلاسوں کا سالانہ کلینڈر جاری کرنا چاہئے ، صوبے میں بے روزگاری ، بھوک ، افلاس ، خراب طرزحکمرانی سمیت دیگر مسائل موجود ہیں اداروں کوکارکردگی بہتر بنانی ہوگی ۔سید فضل آغا نے ان کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میں نے 35سوالات جمع کرائے ہیں اب تک ایک بھی سوال کا جواب نہیں آیا حالانکہ قواعد کے مطابق پندرہ دن میں محکمہ جواب دینے کا پابند ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کاذمہ داراسمبلی سیکرٹریٹ نہیں بلکہ وہ محکمے ہیں جن سے متعلق سوال اسمبلی سیکرٹریٹ انہیں بھیج دیتا ہے اور وہ اس کا جواب نہیں دیتے معاملات سول سیکرٹریٹ سے خراب ہیں اور اس کی وجہ سے وزراء صاحبان ہمارے سامنے آنے سے کتراتے ہیں ۔بعدازاں سپیکر نے وقفہ سوالات اگلے اجلاس تک موخر کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے تمام محکموں کو تاکید کی کہ وہ وقفہ سوالات میں پوچھے گئے سوالات کے جواب ایک ہفتے کے اندر اندر جمع کرانے کو یقینی بنائیں ۔