|

وقتِ اشاعت :   December 20 – 2018

بلوچستان میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران مطلوبہ بارشیں اور بہتر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے صوبہ کے بیشتر اضلاع خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں، گزشتہ ادوار میں جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے بلوچستان کے اس اہم نوعیت کے مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج بلوچستان قحط زدہ ہوگیا ہے۔ 

بلوچستان میں دو اہم نوعیت کے منصوبے آج بھی تعطل کا شکار ہیں جس میں پٹ فیڈرکینال سر فہرست ہے جس پر اب تک اربوں روپے خرچ کئے گئے ہیں جبکہ یہ منصوبہ دس سال پرانا ہے، موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی خود اس منصوبہ پر خطیر رقم کے خرچ اور تعطل پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں پانی بحران سے نمٹنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔

1991ء میں صوبوں کے درمیان پانی تقسیم کا معاہدہ ہوا لیکن آج بھی بلوچستان کو اس کے حصہ کا پانی نہیں دیاجارہا اب یہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے یقیناًوفاقی حکومتوں کی عدم توجہی کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیاجاسکتاکیونکہ مرکز کا اس میں اہم کردار ہوتا ہے کہ کس طرح سے صوبوں کے معاملات کو بہتر انداز میں حل کیاجائے۔ 

بلوچستان میں پانی بحران پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی از خود نوٹس لیاہے جس کی سماعت کوئٹہ میں ہوئی اور دو وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری سمیت متعلقہ اداروں کے حکام کو طلب کیا گیا تھا جو کہ ایک اچھا اقدام تھا، اب وفاقی حکومت بھی اس جانب توجہ دے کیونکہ بلوچستان میں روز بروز پانی کا بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔

جس طرح گزشتہ روز وزیرداخلہ سلیم کھوسہ نے پریس بریفنگ میں کہاکہ بلوچستان میں خشک سالی سے ایک لاکھ سے زائد خاندان متاثر ہوئے ہیں،صوبے کے 20 اضلاع خشک سالی کاشکارہیں،ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت خشک سالی سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھارہی ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے صوبے میں خشک سالی سے متعلق سروے کیا جارہا ہے،جبکہ صوبے میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے،خشک سالی سے متعلق وفاقی حکومت سے بھی رجوع کیا جائیگا،،خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں امداد کیلئے 50 کروڑ روپے جاری بھی کردئیے گئے ہیں۔

صوبے میں ریسکیو 1122 کو فعال کیا جائیگا۔ موجودہ حکومت نے جن اعداد وشمار کا ذکر کیا ہے اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں کی صورتحال انتہائی ابتر ہے جبکہ دیہاتوں میں لوگ تالابوں سے جانوروں کا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ 

کسی حد تک صوبائی حکومت نے اقدامات تواٹھائے ہیں مگر بلوچستان میں جن سوڈیمز کا ذکر کیاجارہا ہے ان کو بھی جلد مکمل کرنے پر زور دیاجائے اور ساتھ ہی پانی کے حوالے سے جو منصوبے موجود ہیں خاص کر کچھی کینال، پٹ فیڈرکینال اور مانگی ڈیم جیسے اہم منصوبوں کے مکمل ہونے سے کوئٹہ سمیت بلوچستان میں پانی بحران سے نہ صرف نمٹاجاسکتا ہے بلکہ یہاں کے عوام جن کا ذرائع معاش زراعت سے وابستہ ہے اس سے لاکھوں گھرانے برسر روزگار ہونگے ۔ 

بلوچستان میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے زمینیں بنجر ہوکر رہ گئی ہیں جس میں بلوچ اور پشتون علاقے دونوں شامل ہیں جہاں پہلے زرعی زمینوں سے نہ صرف زمیندار بلکہ غریب کسان بھی فائدہ اٹھائے رہے تھے مگر اب زراعت کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور زراعت سے منسلک لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔

ضروری ہے کہ ان حالات سے نمٹنے کیلئے حکومت تمام وسائل بروئے کارلائے اور بلوچستان میں زراعت کو مزید تباہی سے بچانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ بلوچستان میں خشک سالی سے نکلنے کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبہ میں بھی بہتری لایا جاسکے۔