مسلمان ممالک میں عرصہ دراز سے ا مریکہ اور عالمی برادری کی مداخلت رہی ہے گو کہ ان ممالک میں طویل غیر جمہوری دور بھی گزرے ہیں جن کی برائے راست حمایت امریکہ کرتارہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان خطوں میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنا اور وہاں کے وسائل کو باآسانی لے جانا ہے۔
شام کی صورتحال بھی کچھ اسی طرح کی ہے کیونکہ شدت پسندوں کو ماضی میں جس طرح سے تربیت دیکر منظم کیا گیا کہ وہ اتنی بڑی طاقت بن کر ابھرے کہ آج دنیا بھرکیلئے درد سر بن گئے ہیں ، امریکہ سمیت عالمی طاقتیں ہمیشہ جمہوریت ، عوامی خواہشات اور انصاف پر مبنی حکمرانی کے دعویدار دکھائی دیتے ہیں مگر ان کے مفادات جہاں ہوتے ہیں وہ ان اصولوں کی پرواہ نہیں کرتے۔
اب شام سے امریکی افواج کی انخلاء پر مختلف آرا ء سامنے آرہی ہیں،ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ایران، روس اور شام کی شدت پسند تنظیم کے خلاف مقامی لڑائی کا حصہ بننے کی توقع نہ کی جائے۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے اعلان کے ایک روز بعد ترکی کے وزیر دفاع نے شمالی شام میں کرد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وقت آنے پر شامی کرد ملیشیا کے ارکان کو ان کی خندقوں میں دفن کر دیا جائے گا۔
دریں اثناء شام میں لڑنے والے کردوں کے ایک اتحاد نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شدت پسند تنظیم کو کو شکست دینے کے اعلان اور شام سے امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے سے شدت پسند تنظیم کو خطے میں ایک بار پھر اپنے قدم جمانے کا موقع ملے گا۔
سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق امریکہ کے جانے سے علاقے میں ایک خلا ء پیدا ہو جائے گا اور امریکہ کے اتحادی اپنے دشمنوں کے درمیان پھنس جائیں گے۔
بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر امریکی افواج شام سے نکل جاتی ہیں تو اس سے خطے میں قیام امن کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اسطرح ایک سیاسی اور عسکری خلا ء پیدا ہو جائے گا۔اس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر امریکی سینیٹر زاور اتحادی ممالک بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شام سے امریکی افواج کی واپسی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے جو کہ 100 دنوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکی فوجیوں کی تاریخی کامیابیوں کے بعد وقت آ گیا ہے کہ انہیں گھر واپس بلایا جائے۔تاہم صدر ٹرمپ کے شام سے امریکی فوجی واپس بلانے کے فیصلے پر امریکی سینیٹرز کے علاوہ اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
امریکی صدر کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے اہم سینیٹرز نے اس فیصلے پر کھل کر تنقید کی ہے اور اسے ایک بری اور بڑی غلطی کہتے ہوئے اسے ایران اور روس کی فتح قرار دیا ہے۔برطانیہ نے بھی صدر ٹرمپ کے ان اندازوں پر سوال اٹھائے ہیں جن کے مطابق شدت پسندوں کو شکست ہو چکی ہے۔بدھ کو وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ شام میں شدت پسند تنظیم کو شکست دینے کے بعد امریکی فوجیوں کی واپسی شروع کر دی گئی ہے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ آیا شام میں تعینات تمام دو ہزار امریکی فوجی نکالے جا رہے ہیں جبکہ امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ مہم اگلے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ تاہم پینٹاگون نے بھی اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دیں۔شام میں تعینات دو ہزار امریکی فوجیوں نے بہت حد تک ملک کے شمال مشرقی حصے کوشدت پسندتنظیم کے قبضے سے آزاد کروایا ہے تاہم اب بھی وہاں شدت پسندوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔
ان سات سالوں میں تقریباً پانچ لاکھ شامیوں نے اپنی جان گنوائی ہے اور تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ شامی ایسی حالت میں ہیں کہ انہیں انسانی امداد کی شدید ضرورت ہے جبکہ بعض نے علاقے سے نقل مکانی بھی کی ہے ۔
شام کے معاملے پر اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ معاملے کو کس طرح مستقل بنیادوں پر حل کیاجائے ضروری تو یہ ہے کہ تمام فریقین جو شام کی جنگ میں برائے راست ملوث ہیں وہ ایک پالیسی اپنائیں کہ کس طرح شام سے امریکی افواج کا انخلاء مکمل ہو، اس کیلئے اسلامی ممالک کا کردار انتہائی اہم ہے کہ وہ اپنے اندر اتنی صلاحیت پیدا کریں کہ اپنے معاملات خود حل کرسکیں۔
دنیا کو اپنے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی نوبت ہی نہ آنے دیں کیونکہ وہ آپ کو کچھ بھی مفت میں نہیں دیتا، اس کی قیمت آپ کے وسائل لوٹ کر اور آپ کے لوگوں کو خون میں نہلا کر وصول کرتی ہے ۔