|

وقتِ اشاعت :   December 27 – 2018

بلوچستان حکومت نے گزشتہ دنوں کابینہ اجلاس کے دوران تعلیمی ایکٹ 2018ء کی منظوری دی جس کے بعد اساتذہ تنظیمیں سراپا احتجاج بن گئیں۔ دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ان کے خدشات کو دور کیاجائے گا ۔ 

اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ بجٹ میں اربوں روپے مختص کرنے کے باوجودمحکمہ تعلیم وہ نتائج نہیں دے سکا جو دینا چاہئے تھا،یہ خطیر رقم عوام کے پیسے سے اس محکمہ کے لئے اس لیے رکھے گئے تاکہ بلوچستان میں تعلیم کا معیار بہتر اور ہمارے بچوں کا مستقبل روشن ہوسکے۔ 

لیکن بد قسمتی سے آج بھی صوبہ کے لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ سرکاری اسکولوں میں بچوں کواس سطح کی تعلیم فراہم نہیں کی جارہی جس سے انہیں فائدہ پہنچے،نیز سرکاری اسکولوں کی حالت بھی انتہائی خستہ ہے ۔ کوئٹہ جو بلوچستان کا دارالخلافہ ہے ،سریاب روڈ پر دو سرکاری اسکول کرایہ کے مکان پر لئے گئے ہیں جن کا کرایہ نہ دینے پر مالک مکان نے بچوں کو کمروں سے باہر نکال دیا اور کرایہ کے پیسوں کی مانگ کرتے رہے۔

اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہوسکتا ہے ،کیا اس طرح بلوچستان کے بچے جدید دور کے تعلیم سے آراستہ ہونگے اور باقی دنیاکا مقابلہ کریں گے۔ ملک کے دیگر صوبوں میں کم ازکم سرکاری اسکولوں کی حالت زار اس قدر گھمبیر نہیں جس طرح ہمارے یہاں ہیں۔ اندرون بلوچستان میں تو صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔ ایک بہترین معاشرے کی تشکیل میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتا ہے جبکہ ہمارے یہاں اس شعبے پر سیاست کی جارہی ہے۔

اسی وجہ سے آج ستر سال گزرنے کے باوجود بھی ہم دیگر صوبوں سے بہت پیچھے ہیں جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں کیونکہ ہم ایمانداری سے اپنے فرائض انجام نہیں دیتے۔ آج بھی بلوچستان کے بیشتر سرکاری اسکولوں میں حاضری کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ، بعض علاقوں میں اساتذہ اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہی نہیں اور بچے اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے اسکول کا رخ نہیں کرتے، مجبوراََ غریب والدین اپنے بچوں کواسکول بھیجنے کے بجائے محنت مزدوری کیلئے بھیجتے ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے ۔

کیونکہ کوئی بھی والدین خوشی سے اپنے بچوں کیلئے اس قدر مشقت بھری زندگی کا نہیں انتخاب نہیں کرتے مگر ہمارے بے حس رویوں سے ایسے حالات جنم لیتے ہیں ۔ بلوچستان میں غربت کی ایک بڑی وجہ ناخواندگی بھی ہے ۔

موجودہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں ضرور تعلیمی ایکٹ 2018 ء پر نظر ثانی کریں اورجہاں کسی کے ساتھ زیادتی کے خدشات ہیں، اس شق میں ترمیم کریں مگر اس بات کی اجازت کسی کو نہ دی جائے کہ وہ تعلیم کے شعبہ کے ساتھ مذاق کرے جس کے اثرات برائے راست ہمارے بچوں کے مستقبل پر پڑے، یہ سیاست کی بازی نہیں جسے جیت کر ہم بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں، یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ حکومت نے اپنے پانچ بجٹ کے دوران تعلیم کے لیے اربوں روپے مختص کئے وہ رقم کہاں اور کس طرح خرچ کی گئی ، اس سے ہم نے اب تک کیا نتائج برآمد کئے ۔

لہٰذا بلوچستان کے بچوں کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومتی واپوزیشن جماعتیں بیٹھ کر فیصلہ کریں خاص کر تعلیم جیسے اہم شعبے میں بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ مستقبل میں اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکیں۔

خدارا اس شعبے کو سیاست کی نذر نہ ہونے دیں ۔ بلوچستان کامستقبل علم کے چراغ سے ہی روشن ہوگا جس کیلئے اساتذہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اساتذہ ہی اس چراغ کو ایندھن فراہم کرتے ہیں اور اسے روشن رکھتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اساتذہ کارتبہ انتہائی بلند ہوتا ہے لیکن اس بلندی کا پیمانہ اساتذہ کا کردار اور عمل طے کرتا ہے ۔