|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2018

قوموں اور ممالک کی ترقی میں عوام کا بنیادی کردار ہوتا ہے مگر اس سے بھی بڑھ کر ذمہ داری ہمیشہ لیڈر شپ کی ہوتی ہے جو کرپٹ ذہنیت اور اقرباء پروری سے کوسوں دور ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں گزشتہ کئی ادوارسے کاروباری ذہنیت سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اقتدار پر براجمان رہے جن کی غلط پالیسیوں،کرپشن، اقرباء پروری کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہوکر رہ گیا ہے۔

شاہ خرچیوں اور غیر ضروری منصوبوں کی وجہ سے ملکی معیشت تباہ ہوکر رہ گئی ، اتنے قرضے لئے گئے کہ جس کی وجہ سے ملک کا دیوالیہ نکل گیا ہے، آج ملک پوری طرح قرضوں میں ڈوب چکا ہے جبکہ ہم مزیدقرضہ لینے پر مجبور ہیں ۔حالانکہ ہمارے پاس اپنے اتنے وسائل اور پیداواری قوت ہے کہ ہم ان بحرانات کا شکار نہیں ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں کوئی معاشی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے سمت کا صحیح تعین نہیں کیا جس کا خمیازہ آج مختلف بحرانات کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے وزارت خارجہ، بیرون ملک تعینات سفیروں، وزارت داخلہ اور متعلقہ اداروں کے مابین موثر اور مربوط رابطوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان انسانی و قدرتی وسائل سے مالا مال اچھوتی سرزمین ہے، درپیش چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دستیاب مواقع سے بھرپور استفادہ کرنا ہوگا۔

دوسروں پر انحصار کی پالیسی ترک کرنا ہو گی، بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ، نئی منڈیوں کی تلاش کے ذریعے برآمدات میں اضافہ اور کاروبار میں آسانی اور اسے منافع بخش بنانا اور منی لانڈرنگ کی موثر روک تھام ترجیحات میں شامل ہے، سمندر پار پاکستانی بالخصوص محنت کش طبقہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہے۔

ان سے رابطوں کا فروغ اور ان کے مسائل کے حل میں معاونت کرنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج جو مالیاتی بحران ہے، یہ ہمارے لئے بہت بڑا موقع ہے اور اس سے واضح ہو گا کہ پاکستان اب ایسے نہیں چل سکتا، ہم نے بحرانوں سے نکلنا ہے تو سوچ کو تبدیل اور دوسروں پر انحصار کو ختم کرنا ہو گا، ہم قرضوں کے انتظار میں رہتے تھے، بجائے اس کے کہ ہم اپنی معیشت میں خرابیوں کو دور کرتے۔ 

انہوں نے کہا کہ ملک گھر کی طرح ہوتے ہیں، جب خرچ زیادہ اور آمدن کم ہوتی جا رہی ہو تو قرضے لے کر گھر چلانے سے گھر بھی تباہ ہو جاتے ہیں، خسارہ بڑھنے پر آمدن بڑھانے کی بجائے قرضوں کا شارٹ کٹ اختیار کیا گیا۔ 

انہوں نے کہا کہ کوئی مفت میں قرضہ نہیں دیتا، ہم قرضے لے کر اپنی عزت نفس اور خود مختاری کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں اور ہماری عزت نفس اور غیرت ختم ہوتی گئی کیونکہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے والے اپنی عزت نفس کھو بیٹھتے ہیں، قرض لینے سے ہماری سوچ خراب ہو گئی اور قومی تعمیر نہیں ہو سکی۔

انہوں نے کہا کہ قرضوں کی وجہ سے امیر لوگ فائدہ اٹھاتے تھے جبکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پستے تھے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ سابقہ ادوار کی غلط پالیسیوں اور طرز حکمرانی کی سزا عوام بھگت رہی ہے قرضوں کی ادائیگی کا سارا بوجھ عوام مہنگائی کی صورت میں ادا کررہی ہے تو دوسری جانب بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں ۔

ایک عجیب سی صورتحال کا سامنا ہے مگراس سے نکلنے کیلئے ماضی کو کوسنے کی بجائے آگے کی طرف بڑھنے اور چلنے کی سوچ پر زور دینا ہوگا۔ ملکی پیداوار کو عالمی منڈی تک رسائی کیلئے عالمی سطح پر لابنگ کی ضرورت ہے ،دنیا کے سرمایہ کاروں کو ملک میں لانے کیلئے پالیسیاں مرتب کی جائیں جبکہ اپنی پیداوار کو بڑھانے کیلئے وسائل خرچ کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی وقت کی ضرورت ہے ۔

پاکستان کے پاس وہ تمام وسائل موجود ہیں جن سے معاشی بحران سے نکلا جاسکتا ہے صرف بہترین منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ماضی کی حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہوئے از سرنوپالیسی مرتب کرنا بھی ضروری ہے۔