پاکستان سے ملحق افغان سرحد پر باڑ نہ لگنے کی وجہ سے دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہوئے جس سے ہمارے یہاں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور بدامنی عروج پر پہنچی مگر جب سے افغان سرحد پر باڑلگانے کا عمل شروع کیا گیا ہے اس میں کافی کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ دہشت گرد سرحد پار کرکے ملک کے اندر داخل نہیں ہونگے ۔
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل سرحد کے ساتھ ساتھ 233 سرحدی چوکیوں کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا ہے جبکہ 144 مزید چوکیوں کی تعمیر پر کام ہو رہا ہے۔ ان چوکیوں کی تعمیر کے علاوہ پاکستان افغان سرحد پرتقریباً پانچ سو کلومیٹر سے زیادہ طویل حصے پر باڑ لگانے کا کام بھی مکمل کر چکا ہے۔
پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے مطابق پاکستان کے اندر ہونے والی شدت پسند کارروائیاں اکثر سرحد پار سے کی جاتی ہیں ، ان کو روکنے کے لیے اس سرحد پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ حکام کے مطابق افغانستان کی سرحد پاکستان میں منشیات اور دیگر اشیا ء کی سمگلنگ کا بھی بڑا راستہ ہے۔ خیبرپختونخوا سے متصل افغانستان کی سرحد تقریباً 1403 کلو میٹر طویل ہے اور انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقوں سے گزرتی ہے۔
ان علاقوں میں باڑ لگانے کے کام کو ناممکن تصور کیا جا رہا تھا۔ اس انتہائی دشوار گزار علاقے میں باڑ لگانے کا کام فروری 2017 میں شروع کیا گیا ۔ باڑ لگانے کے منصوبے کے پہلے مرحلے میں اس سال دسمبر تک 539 کلو میٹر تک باڑ لگانی تھی جس کو وقت پر مکمل کر لیا گیا ہے۔
اس منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں اگلے دو برس میں بالترتیب 349 اور 459 کلو میٹر حصے پر باڑ لگائی جائے گی۔حکام کے مطابق طورخم کے راستے سرحد کے آر پار غیر قانونی نقل و حرکت کو ناممکن بنا دیا گیا ہے اور صرف قانونی سفری دستاویزات کے حامل افراد ہی سرحد کے آر پار آ جا سکتے ہیں۔
سرحد پر لگائی جانے والی خار دار تاروں سے بنائی گئی باڑ پاکستان کی جانب سے 11 فٹ بلند ہے جبکہ افغانستان کی جانب سے اس کی اونچائی 13 فٹ ہے۔ ان دونوں باڑوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ ہے جس میں خار دار تاروں کا جال ڈال دیا گیا ہے۔اس سرحد کی مستقل نگرانی کے لیے سرحد کے ساتھ ساتھ چوکیوں کی تعمیر کے علاوہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ ان میں نگرانی کا الیکٹرانک نظام، کلوز سرکٹ کیمرے اور ڈرونز کیمروں کی مدد بھی لی جاتی ہے۔
حکام کے مطابق سرحد پر باڑ لگانے کے کام کے آغاز سے اب تک 1900 افغان شہریوں کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے واپس سرحد پار بھیجا جا چکا ہے ۔باڑ کا کام مکمل ہونے کے بعد حکام کے مطابق قانونی طور پر سرحد پار آمد و رفت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اس بارے میں اعداد و شمار دیتے ہوئے سیکورٹی حکام کا کہنا تھا کہ روزانہ تقریباً 12000 سرحد کے آر پار جاتے ہیں جبکہ 1200 ٹرک بھی تجارتی مال لے کر افغانستان جاتے یا آتے ہیں۔
سرحد پر باڑلگانے کا عمل دونوں ممالک کے مفاد میں ہے تاکہ سرحد کو غیر قانونی طور پر استعمال نہ کیاجاسکے جس طرح ماضی میں ہوتارہا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ سرحد پار کرتے رہے ہیں جس میں خاص کر وہ عناصر شامل ہیں جو دہشت گردی کے ارادے سے یہاں معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
باڑ کی تنصیب سے دہشت گردی کی روک تھام میں کافی مددملے گی ۔ خطے کو امن کی جانب گامزن کرنے کیلئے پاک افغان سرحد پر باڑلگانا ناگزیر بن چکا ہے خاص کر ہمارے لئے کیونکہ ہم نے اس سے بہت نقصانات اٹھائے ہیں اوراب اس کے اچھے اور مثبت نتائج برآمد ہونگے ۔