قلات: کوئٹہ اور کراچی کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیئے آر سی ڈی ہائی وے ایک پل سراط کی حیثیت بن گیا ہے جس نے گزشتہ گیارہ مہینوں کے درمیان 166 افراد کو نگل لیا ہے جبکہ 320 افراد اس شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے ایک سو پندرہ ٹریفک حاد ثات میں زخمی ہوئے ہیں ۔
سب سے زیاد ہ حادثات خضدار اور بیلہ کے درمیان پیش آئے ہیں اور مسافر کوچ زیادہ تر مسافر بسیں اور کوچز حادثات کا شکار ہو ئے ہیں جہاں عام لوگوں نے ان بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی نشاندھی کی وہاں ایک سے زیادہ مرتبہ بلوچستان اسمبلی میں بھی اس پر آواز اٹھائی گئی ۔
عوامی نمائیندوں نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ ان حادثات کے روک تھام کے لیئے ضروری اقدامات اٹھائے جائے موسم سرما کے پہلے اسمبلی اجالاس میں ایک بار پھر یہ مسئلہ اس وقت زیر بحث آیا
جب اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے اس بارے میں اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی جس پر عوامی نمائیندوں نے تفصیلی بحث کی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کوئٹہ کراچی ہائی وے پر بڑھتے ہوئے حادثات کو روکنے کے لیئے موٹروے پولیس کو فعال کیا جائے اور شاہراہ پر گاڑیوں کی رفتار کو چیک کرنے کے لیئے اسپیڈو میٹر لگائی جائے کو ئٹہ کراچی شاہراہ پرمسافروں کے لیئے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر نا کسی مہم جو سے کم نہیں تیس سال قبل بنائی گئی ۔
کوئٹہ کراچی شاہراہ موجودہ ٹرانسپورٹ کے لیئے ناکافی ہے قومی شاہراہ پر ٹریفک میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہیں یہ سنگل سڑک کوئٹہ کراچی کے ساتھ ساتھ گوادر اور صوبہ سندھ کو بھی ملاتی ہے اور اس سڑک پربہت رش کی وجہ سے حادثات میں بھی اضافہ ہو تا جارہا ہیں ۔
مسافروں کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹرز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی چکر میں ایسے ڈرائیور وں کو گاڑیا ں چلا نے کے لیئے دیتے ہیں جو کم سے کم وقت میں مسافروں کو اپنے منزل تک پہنچائے اور ایسے ڈرائیور اکثر نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہیں ۔
جبکہ انہیں آرام کے لیئے بھی مناسب وقت نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے حادثات رونما ہو تے ہیں جبکہ قومی شاہراہ کی چوڑائی میں اضافہ کر نے کے لیئے نہ سابقہ حکومتوں نے کوئی اقدام کیا اور نہی موجودہ حکومت اس جانب توجہ دے رہی ہے ۔
رکن قومی اسمبلی آغا محمود شاہ کا کہنا ہے کہ یہ بلوچستان کے ساتھ انتہائی نا انصافی ہے دیگر صوبوں میں قومی شاہراہیں ڈبل رویہ ہے اور بلوچستان کا یہ شاہرا ہ جو کوئٹہ کراچی سندھ بلوچستان کو ملانے والی واحد شاہراہ ہے اور اس پر کافی رش بھی ہے ٹریفک کی آمد و رفت بہت زیادہ ہے مگر اس پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا ہے ۔
اس شاہراہ پر آئے روز حادثات ہو تے ہیں حکومت اس جانب توجہ دے میں نے قومی اسمبلی میں اس سے قبل بھی اس ایشو پر بات کیا ہے مگر حکومتیں بلوچستان کو حقوق دلانے کی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہیں ۔
بلوچستان میں سی پیک کے تحت قومی شاہراہوں کو اپ گریڈ کر نا تھا وہ بھی ابھی تک نہیں کیا جارہا ہے جو کہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہیں سیکریٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی عائشہ زہری کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑا المیہ ہے ہم سب کو معلوم ہے کہ یہاں حادثات بہت زیادہ ہورہے ہیں۔
کوئٹہ کراچی چمن شاہراہ ایم 25 پر مسلسل حادثات ہو رہے ہیں یہ سڑک تیس سال قبل جس وقت بنی تھی اس وقت اتنا رش نہیں تھا اس کے بعد اس سڑک کو چھوڑا نہیں کیا گیا ہے یہ سڑک بہت تنگ ہے اور ہیوی ٹریفک کے لیئے ناکافی ہے کیونکہ اس سڑک پر ٹریفک کی حجم میں دن بدن اضافہ ہو تا جارہا ہیں جس طرح لاہور اسلام آباد میں سڑکیں بنائی گئی ہیں ۔
اسی کی طرح چھوڑا نہیں کیا جاتا تو اس کو ڈبل تو کیا جاسکتا ہیں یہ ایک سنگل ٹریک ہے اس کی وجہ سے اس سڑک پر حادثات زیادہ ہوتے جارہے ہیں جو بس ڈرائیور حد رفتار سے تیز چلاتے ہیں ان کے خلاف کاروائی کررہے ہیں میں زاتی طور پر اس پر کام کررہا ہوں اور ایسے ڈرائیوروں کے خلاف گرینڈ آپریشن کررہے ہیں ۔
میں خود جاکر چیک پوسٹس پر چیک کرتی ہوں اور ان چیک پوسٹوں پر ڈارئیوروں کے لائسنس اور روٹ پرمنٹ چیک کرتے ہیں جن گاڑیوں میں فوگ لائٹس یا اضافی لائٹس لگائے جاتے ہیں جو حادثات کا سبب بن رہے ہیں ان کے خلاف بھی کاروائی کررہے ہیں منی بسوں کے چھتوں پر جوٹرانسپورٹرز مسافروں کو بیٹھا تے ہیں اور ڈنڈہ سیٹ والے منی بسوں کے خلاف بھی کاروائی جاری ہیں ایڈیشنل کمشنر قلات ڈویثرن امیر افضل اویسی کا کہنا ہے کہ روڈ پر ٹریفک بڑھ چکی ہے ۔
پہلے اگر دس سے پندرہ بسیں چلتی تھی اب یہ بڑھ کر دونوں اطراف سے سو سے زیادہ ہوچکی ہیں دوسرا یہ ہے کہ جو بھاری ٹریفک ہے ٹرالر ز ٹرکیں اور دیگر لوکل ٹریفک میں بھی اضافہ ہو گیا ہیں حادثات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹریفک کی بھاؤ میں کافی حد تک اضافہ ہو گیا ہیں ہم نے پلان کیا تھا کہ ہر ضلع میں چیک پوسٹ قائم کیا جائے ہم نے یہ بھی پلان کیا تھاکہ ٹراما سینٹرز قائم کیا جائے ۔
ہمیں تین ٹراما سینٹرز چاہئے لیکن گورنمنٹ فنڈنگ نہیں کررہی ہمیں ایک ٹراما سینٹر مستونگ میں ایک شہید سکندر آباد میں اور ایک لسبیلہ میں چاہئے ٹراما سینٹرز نہ ہو نے کی وجہ سے حادثات میں لوگ زیادہ جانبحق ہو جاتے ہیں اس روڈ پر باقاعدہ ایمبولینس سروس نہیں ہے پرائیویٹ سیکٹر کو نہیں آنے دیا جارہا ہیں ۔
اس روڈ کی باقاعدہ ہیلپ لائن ہو نی چاہئے جوابھی تک قائم نہیں کی گئی ہیں اگر یہ تما م چیزیں ہوجائیں تو حادثات میں اموات میں کمی آسکتی ہیں اس سڑک کو ابھی ڈبل روڈ ہو نا چاہئے توحادثات میں بہت کمی آجائے گی ۔
اس کے علاوہ ریسکیو 1122 کا سیٹ اپ آجائے یا ٹراما سینٹرز قائم کیا جائے تو یہ بھی اچھا اقدام ہیں بس حادثہ میں متاثرہ شخص محب علی لہڑی جو کہ چند روز قبل قلات سے اپنے فیملی کے ساتھ خوشی خوشی کراچی جارہے تھے کہ اوتھل کے قریب ان کی بس حادثے کا شکار ہو گئی حادثے میں تین افراد جانبحق ہو گئے جن میں محب علی لہڑی کی اہلیہ جان کی بازی ہار گئی ۔
حادثے میں ان کے تین بچے زخمی بھی ہو گئے جن میں سے ایک کے سر میں شدید چوٹے آنے سے ابھی تک صحت یاب نہیں ہو سکا ہے محب علی لہڑی نے حادثہ کو روداد بتاتے ہوئے کہا کہ میں اپنے فیملی کے ساتھ پہلی بار کراچی خوشی خوشی جارہے تھے ۔
ہم جب خضدار پہنچے تو ہم نے محسوس کیا کہ ہم غلط اور نشہ کر نے والی ڈرائیور کے ساتھ سفر کررہے ہیں جو بہت ہی تیز رفتار سے بس کو چلارہے ہیں ہم نے ایک لمحے کے لیئے فیصلہ کر نے کر کو تیار ہو گئے کہ اس بس سے اتر جائیں مگر بچے نہیں مانے ہمیں پتہ چلاکہ ڈرائیور مکمل نشے میں تھی اور ہم نے باتوں باتوں میں ڈرائیور سے پوچھا کہ استاد آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے تو اس نے کہا کہ میں نے آج پورا دن سفر کر کے کراچی سے کوئٹہ پہنچا تھا تو کمپنی والوں نے مجھے آرام نہیں کر نے دیا اور مجھے واپس کراچی کے لیئے روانہ کر دیا اس لیئے تھوڑا تھکاوٹ ہے ۔
ہم جب بیلہ سے جارہے تھے تو بس بہت ہی تیز رفتار سے جارہی تھی اور اچانک سے بس سڑک سے اتر گئی اور کلابازیاں کھاتی ہوئی سڑک سے بہت دور جاگری جب مجھے ہوش آیا تو میں اور میرے بچے ہسپتال میں تھے مجھے بتایا گیا کہ میر ی اہلیہ حادثے میں جانبحق ہو گئی ہیں اور میرے تین بچے زخمی ہیں ۔
حادثہ کے بعد کمپنی والوں نے ہمیں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا ہم اپنی مدد آپ کے تحت اپنے مریضوں کو ہسپتال پہنچائے اور میں نے خود ایمبولینس لے کراپنے اہلیہ کی جسد خاکی کو قلات روانہ کر دیا اور اپنے بچوں کو کراچی علاج کے لیئے لے گیا۔
اس کے بعد بھی کمپنی والوں نے ہمارا حال تک نہیں پوچھا میرا ایک بیٹا ابھی بھی کراچی میں زیر علاج ہے ایک اور بس حادثے کا شکار قلات کا رہائشی مولانا ابومقصود کا کہنا ہے کہ وہ اور انکے تین بچے کراچی جارہے تھے کہ بیلہ اور اتھل کے درمیانی علاقہ میں ان کا بس تیزی رفتاری کے باعث حادثے کو شکار ہو گئی اور وہ اور ان کے تینوں بچے زخمی ہو گئے ۔
ان کا کہنا تھا کہ جس مسافر بس میں ہم سفر کررہے تھے وہ بہت ہی تیز رفتار سے جارہی تھی اور دوسرے بسوں کو اورٹیک کرکے آگے نکل رہی تھی کہ موڑ کاٹے ہوئے تیز رفتاری کے باعث بے قابو ہو کر الٹ گئی انہوں نے کہا کہ سڑک پر رش تو بہت ہے مگر میرے خیال میں حادثات تیز رفتاری اور غلط اور ٹیکنگ سے ہو جاتی ہیں اور کوئٹہ کراچی شاہراہ پر سفر کر نے والے ان مسافر بسوں کے مالکان سے کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے ۔
قبائلی و سیاسی رہنماء مولانا محمد قاسم فاروقی کا کہنا ہے کہ یہ سن کر بہت افسوس ہوا کہ کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر صرف گیارہ مہینوں می 160 سے زائد افراد جانبحق ہو گئے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہو گئے ہیں یہ موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی ناہلی کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اس اہم قومی شاہراہ کی اپ گرڈیشن نہیں کیا ۔
اس کے چوڑائی میں اضافہ نہیں کیا اس کے علاوہ انتظامیہ کی بھی نااہلی ہے کہ شاہراہ پر حادثات کے روک تھام کے لیئے خاطر خواہ اقدام نہیں کیا گیاہے جمعیت علما اسلام بلوچستان کے سالار اور ایم ایم ائے کے صوبائی ترجمان حافظ محمد ابراہیم لہڑی کا کہنا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد کو ہم سراہتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس قرارداد پر فوری طور پر عمل درآمد کرکے ٹریفک حادثات کے روک تھام کے لیئے ضروری اقدامات کریں