|

وقتِ اشاعت :   January 6 – 2019

بلوچستان میں غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے ۔کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ میں حالیہ اسکریننگ کے دوران چالیس فیصد سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار پائے گئے۔ 

محکمہ صحت بلوچستان نے عالمی ادارے یونیسیف کے تعاون سے غذائی قلت کی صورتحال کا جائزہ لینے اور اقدامات کیلئے ہنگامی بنیادوں پر متاثرہ بچوں کی اسکریننگ کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد گزشتہ برس دسمبر کے دوران پہلے مرحلے میں کوئٹہ ،پشین اور قلعہ عبداللہ میں اسکریننگ کا عمل شروع کیا گیا ، تینوں اضلاع میں اسکریننگ کے عمل میں 2 ہزار 500 ٹیموں نے حصہ لیا، پانچ دسمبر سے 8 دسمبر تک بچوں کا معائنہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں تشویشناک نتائج سامنے آئے ۔ 

ان تینوں اضلاع میں 6ماہ سے 5 سال تک کے بیشتر بچے مختلف اقسام کی غذائی قلت کا شکار پائے گئے ہیں ۔محکمہ صحت کے حکام کے مطابق حالیہ اسکریننگ کے نتائج میں صرف کوئٹہ کے کچھ علاقوں میں غذائی قلت میں مبتلا بچوں کی یہ شرح چالیس فیصد سے بھی زائد پائی گئی ہے جبکہ کچھ جگہوں پر 60 فیصد تک بچے غذائی کمی میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ 

ان میں پنجپائی، میاں غنڈی اور مغربی بائی پاس سمیت دیگر نواحی علاقے شامل ہیں ۔صوبائی دارالحکومت کی اس صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صوبہ کے دیگر علاقوں میں بھی غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ کس حد تک ہوسکتا ہے، بلوچستان کے تقریباََ14 اضلاع میں خشک سالی کی صورتحال ہے۔ 

متاثرہ اضلاع میں پانی کی قلت سے گلہ بانی اور زراعت کے شعبے تو متاثر ہیں ہی لیکن ان اضلاع میں شامل چاغی، واشک اور نوشکی میں بچوں میں غذائی قلت کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں۔ 

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کسی بھی شہر علاقے یا کمیونٹی میں اگر پندرہ فیصد بچوں میں غذائی قلت پائی جائے تو ایمرجنسی نافذ کردی جاتی ہے، یونیسیف کے نیوٹریشن سیکشن کے ڈاکٹر فیصل کاکہناہے کہ صوبے میں بچوں میں غذائی قلت کی کئی وجوہات ہیں جن میں غربت، پینے کیلئے صاف پانی کی عدم دستیابی، مناسب خوراک کی کمی،تعلیم اور آگاہی کا نہ ہونا شامل ہے، جن سے بچوں کی صحت متاثر ہورہی ہے اور اس مسئلے پر یونیسیف محکمہ صحت بلوچستان کو تکنیکی معاونت فراہم کررہا ہے۔ 

صوبے میں غذائی قلت کے حالیہ سروے کے حوالے سے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق کوئٹہ بلاک میں شامل تینوں اضلاع کے غذائی قلت کے شکار بچوں کو رجسٹرڈ کرلیا گیا ہے، ان بچوں کو ضروری غذا فراہم کی جائے گی جبکہ شدید غذائی قلت کے شکار بچوں اورماؤں کے حوالے سے ورلڈ فوڈ پروگرام سے معاونت کی درخواست کی جائے گی۔ 

صوبائی وزیر میر نصیب اللہ مری نے کوئٹہ میں حال ہی میں نیوٹریشن پروگرام کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ پچیس نومبر 2018ء کو غذائی بحران کے نتیجے میں بلوچستان بھر میں نیوٹریشن ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے۔ 

بلوچستان میں غذائیت اور اس سے منسلک طبی پیچیدگیاں ایک اہم مسئلہ ہے اور دیگر صوبوں کی نسبت یہ مسئلہ سنگین صورت اختیارکرتا جارہا ہے۔ حالیہ خشک سالی میں بلوچستان کے تمام اضلاع یکساں طور پر متاثر ہیں اور آگاہی کی کمی نے طبی مسائل میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ 

غذائی قلت کے سنگین مسئلے کے حل کیلئے ہنگامی بنیادوں پر محکمہ صحت بلوچستان کے حکام کے مطابق پہلے مرحلے میں کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی اسکریننگ کے بعد اب دوسرے مرحلے میں بلوچستان میں خشک سالی سے متاثرہ علاقوں چاغی، نوشکی، واشک اور خاران میں اسکریننگ شروع کی جائے گی اور بعدازاں صوبے کے دیگر تمام اضلاع میں بھی بچوں کا معائنہ کیا جائے گا ۔

صوبائی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ غذائی قلت کی صورتحال پر قابو پانے کیلئے یونیسیف کے تعاون سے جلد ایک پیکج لایا جائے گا جس کے تحت صوبے بھر میں غذائی قلت کے شکار تمام بچوں کی نشاندہی کے بعد ان کا مکمل علاج کیا جائے گا۔ 

طبی ماہرین کے مطابق بلوچستان میں بچوں میں غذائی قلت کی صورتحال میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے، اس پر قابو پانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے اور اگر صورتحال پر جلد قابو نہ پا یا گیا تو بچوں میں غذائی کمی کا معاملہ مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔بلوچستان میں اس وقت نوے فیصد علاقے شدید خشک سالی کی لپیٹ میں ہیں غذائی قلت کی ایک بڑی وجہ قحط ہے جس سے ماں اور بچوں کی صحت شدیدمتاثر ہورہی ہے۔ 

بلوچستان میں یہ سلسلہ 90ء کی دہائی کے بعد شروع ہوا ہے تاہم کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے آج صورتحال انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرچکی ہے اگر پیشگی اس پر منصوبہ بندی کی جاتی تو آج صورتحال اس قدر تشویشناک نہیں ہوتی۔ 

حکومت بلوچستان سب سے پہلے تمام اضلاع میں انتظامیہ سے جامع رپورٹ طلب کرے کہ وہاں غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد کتنی ہے تاکہ ایک مکمل معلوماتی ڈیٹا حکومت کے پاس آجائے جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر ان علاقوں میں صورتحال سے نمٹنے کیلئے ٹیمیں روانہ کی جائیں تاکہ آگے چل کر یہ مزید شدت اختیار نہ کرے۔