بلوچستان میں عموماََ یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ بیشتر منصوبے تاخیر کا شکار ہیں یا تو پھر ان میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اسی وجہ سے عوامی نوعیت کا کوئی منصوبہ اپنی مقررہ مدت میں پورا نہیں ہوتا، گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان کی زیر صدارت اجلاس کے دوران پی ایس ڈی پی پر خاص غور کیا گیا جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ عرصہ دراز سے جاری تاخیر کے شکار منصوبوں کے لیے رقم کی اجراء نہیں ہوگی ۔
موجودہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ سابقہ دور میں بعض عوامی نوعیت کے منصوبوں پر مختص رقم خرچ تو کی گئی مگر وہ اپنے مقررہ مدت میں مکمل نہیں ہوئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایسے منصوبوں کو عام طور پر ٹینڈر نہیں کیا گیا بلکہ من پسند افراد میں تقسیم کیا گیا اور جی بھر کرپشن کی گئی جن میں ٹھیکہ دار، آفیسران اورسابقہ دور کے وزراء برائے راست ملوث ہوسکتے ہیں ۔
بلوچستان میں عوامی نوعیت کے جتنے منصوبوں کا اعلان کیا گیا بدقسمتی سے کرپشن یا پھر تاخیر کا شکار ہوئے جس کی بڑی وجہ کرپٹ آفیسران ہیں جو اس میں برائے ملوث رہے ہیں۔ ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ بلوچستان کے میگا منصوبوں پر ہاتھ صاف کیا گیا، اربوں روپے کرپشن کی نذر ہوئے مگر ذمہ داران کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں لیاگیا ۔
اس سے قبل بھی ان منصوبوں کے متعلق رپورٹس شائع ہوئے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ ان عناصر کے خلاف انکوائری کی جائے اور ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس لی جائے، یہ تب ہی ممکن ہوگا جب اس پر حکومت واپوزیشن دونوں سنجیدگی کا مظاہرہ کرینگے کیونکہ بلوچستان میں گڈ گورننس اس وقت قائم ہوگا جب شفاف احتسابی عمل کو یقینی بنایاجائے گا۔
اب ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ کوئٹہ میں پینے کے صاف پانی اور سیوریج کے منصوبے میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں ہوئیں ہیں۔آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق ایک دہائی سے زائد گزرنے اور نو ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود عوامی فلاح کا یہ بڑا منصوبہ مالیاتی بے ضابطگیوں اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے ناکامی سے دو چار ہوا۔
رپورٹ میں پراجیکٹ کا ٹھیکہ غیر شفاف انداز میں پسند اور ناپسند کی بنیاد دینے کا انکشاف ہوا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تعمیراتی کمپنیوں نے شرائط کو پورا نہیں کیااور منصوبے کو تباہی کی جانب دھکیل دیا۔ منصوبے کی لاگت تقریباً سات ارب روپے سے بڑھ کر سترہ ارب روپے ہوگئی۔ نو ارب روپے خرچ کرلئے گئے مگر منصوبے کے بیشتر اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے۔
پندرہ سو کلومیٹر طویل پائپ لائنیں بچھانے کا دعویٰ کیا گیا مگر کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔ اڑسٹھ کروڑ خرچ کرنے کے باوجود پچیس میں سے بائیس ٹینکیوں کی تعمیر کا کام ہی مکمل نہیں ہوا۔ایک ارب چونسٹھ کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی مگر سیوریج کے گندے پانی کو قابل استعمال نہ بنایا جاسکا۔ بارہ کروڑ روپے سے خریدی گئی زمین کا قبضہ بھی حاصل نہیں کیا گیا۔پراجیکٹ کی سات گاڑیاں اور دو موٹرسائیکلیں بھی غائب ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کوئٹہ واٹر سپلائی اینڈ انوائرمنٹل پراجیکٹ مالی سال 2003۔2002 میں بنایا گیا۔ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد قلت آب کا سامنا کرنے والے صوبائی دار الحکومت کے رہائشیوں کو پینے کا پانی فراہم کرناتھا۔حفظان صحت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کے نظام کو درست کرکے ماحول میں بہتری لانا بھی اس منصوبے کا اہم مقصد تھا۔
بلوچستان میں پانی اور سیوریج کا مسئلہ روزاول سے ہی دردسر بنا ہوا ہے ،کوئٹہ جو صوبہ کا دارالخلافہ ہے یہاں بعض علاقوں میں نکاسی آب کا بنیادی ڈھانچہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ قلت آب کا مسئلہ دن بہ دن گھمبیر ہوتاجارہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ جب بھی ان مسائل کو حل کرنے کیلئے منصوبے تشکیل دیئے جاتے ہیں تو ان میں کرپشن ہوتی ہے اور اس طرح عوامی مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جب تک اس کا سدباب نہیں کیاجائے گا مسائل حل نہیں ہونگے۔لہٰذا عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لینے کے ساتھ ساتھ کرپشن فری بلوچستان کی جانب بڑھنے کیلئے اقدامات کا اٹھانا بھی ناگزیر ہوچکا ہے۔