میڈیا رپورٹس کے مطابق انسداد محکمہ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی ساہیوال میں کارروائی کی نئی فوٹیج موصول ہوگئی ہے جو مبینہ مقابلے کے وقت سڑک پر پیچھے کھڑی ایک گاڑی میں بیٹھے شہری نے موبائل سے بنائی۔موبائل سے بنائی گئی ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا گیاکہ سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گاڑی کو ٹکر مار کر روکا اور پہلے گاڑی سے بچوں کو اتارا جس کے چند سیکنڈز بعد اہلکاروں نے سیدھی فائرنگ کردی گاڑی میں ذیشان اور مہرخلیل کی جانب سے جوابی فائرنگ نہیں کی گئی۔
فوٹیج میں دیکھا گیاکہ اہلکاروں نے گاڑی سے کوئی سامان نہیں نکالا اور نہ ہی سی ٹی ڈی ٹیم پر کسی موٹرسائیکل سوار کی جانب سے فائرنگ کی گئی ۔واضح رہے گزشتہ روز ساہیوال میں کارروائی کے بعد سی ڈی ٹی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے دہشت گردی کا بہت بڑا منصوبہ ناکام بنادیا۔اور یہ کہ گاڑی میں موجود ذیشان سمیت نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی جانب سے ان پرفائرنگ کی گئی تھی جب کہ چاروں افراد کی ہلاکت بھی ان کے ساتھیوں کی فائرنگ کا نتیجہ قرار دی گئی۔
دوسری جانب پنجاب حکومت نے ساہیوال واقعہ میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے اہل خانہ کیلئے 2کروڑ روپے کی مالی امداد اور بچوں کی مکمل کفالت کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ ساہیوال آپریشن انٹیلی جنس بیسڈ تھا جو اعلیٰ خفیہ ادارے اور سی ٹی ڈی نے مشترکہ طور پر کیا ، ذیشان کا تعلق کالعدم تنظیم داعش سے تھا اور اس کی گاڑی دہشتگردوں کے زیر استعمال رہی ،ذیشان کے گھر میں دہشتگرد موجود ہونے کے مصدقہ شواہد ملے ہیں۔
جے آئی ٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ خلیل کا ذیشان کے ساتھ کیا تعلق تھا اور وہ اس فیملی کے ساتھ جارہا تھا، حکومت نے سی ٹی ڈی نہیں بلکہ جے آئی ٹی کے موقف کو تسلیم کرنا ہے اور اس کی رپورٹ پر من و عن عملدرآمد ہوگا ،گوجرانوالہ میں دہشتگردو ں کا گھیراؤ اسی آپریشن کا تسلسل تھا لیکن خلیل او راسکی فیملی کی ہلاکت نے اس آپریشن کو چیلنج کردیا ہے ۔
وزیرقانون راجہ بشارت نے کہا کہ واقعہ میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے اہل خانہ کی درخواست پر مقدمہ درج کرلیاگیا ہے اور اس میں ایک لفظ بھی کم یا زیادہ نہیں کیا گیا ،آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں کے سپروائزر کو بھی معطل کردیا گیا ہے جبکہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے خلیل کے لواحقین کے لیے 2 کروڑ روپے کی مالی امداد اور بچوں کے لیے مفت تعلیم اور ان کی کفالت کا اعلان کیا ہے ۔مالی امداد انسانی زندگی کامداوا تو نہیں کرسکتی لیکن حکومت اپنی ذمہ داری نبھائے گی ۔صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں کیا گیا آپریشن سوفیصد انٹیلی جنس بنیادوں، ٹھوس شواہد ،مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔
ذیشان کے داعش کے نیٹ ورک کے ساتھ تعلقا ت تھے اور یہی نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسر ، علی حید رگیلانی کے اغواء، فیصل آباد میں دو پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 13جنوری کو ایک ہنڈا گاڑی ساہیوال میں گئی اور جب اس کو سپاٹ کیا گیا تو سیف سٹی کے کیمروں نے ذیشان کی گاڑی کی بھی نشاندہی کی جو دہشتگردوں کی گاڑی کے ساتھ تھی ۔ 18جنوری کو ذیشان کے گھر دہشتگرد آئے اور اس کا 13اور18جنوری کو کیمروں کے ذریعے معائنہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ ذیشان دہشتگردوں کے ساتھ کام کر رہا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ذیشان کے گھر میں اسلحہ اوربارود تھا لیکن گنجان آباد علاقے میں گھر ہونے کی وجہ سے کوئی آپریشن نہیں کیا گیا تاکہ علاقے میں انسانی جانوں کو نقصان نہ ہو اور اس کا شہر سے باہر جانے کا انتظار کیا گیا ۔ 19جنوری کو سفید رنگ کی گاڑی کو مانگا کے مقام پر سپاٹ کیا گیا اورایجنسیوں کی اطلاع پر سی ٹی ڈی نے گاڑی کو روکا جو بارود لے کر جارہی تھی۔ گاڑی کے شیشے کالے ہونے کی وجہ سے پیچھے بیٹھی خواتین اور بچے نظر نہیں آئے ۔
انہوں نے کہا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق پہلا فائر ذیشان نے کیا لیکن جے آئی ٹی اس کا تعین کرے گی ،جے آئی ٹی اس بات کابھی تعین کرے گی کہ خلیل اور اس کی فیملی ذیشان کے ساتھ کیوں جارہی تھی اور ان کے آپس میں کیا تعلقا ت تھے ۔ انہوں نے کہا کہ گاڑی سے دو خود کش جیکٹس، آٹھ ہینڈ گرینڈ،دو پستول اور گولیاں برآمد ہوئی ہیں اور یہ کہاں سے آئے اور کس لئے جارہے تھے اس کی تحقیقات ہوں گی ۔
ساہیوال واقعہ پر پنجاب حکومت کی جانب سے ایک طرف سے تو معاوضہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے تو دوسری طرف انہیں دہشت گرد بھی قرار دیتے ہوئے انٹیلی جنس کارروائی قرار دیا گیاہے مگر معاملہ جی آئی ٹی پر چھوڑ دیا گیاہے ۔ ساہیوال واقعہ میں جو مارے گئے ہیں اگر وہ دہشت گرد ہیں تو پنجاب حکومت کی جانب سے فوری طور پر ان کیلئے معاوضہ کا اعلان چہ معنی دارد؟ البتہ یہ اعلان کسی حد تک موجودہ حالات کے مطابق دباؤ کا نتیجہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اب تک جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں اس میں سی ٹی ڈی کا مؤقف بدلتا نظرآرہا ہے جبکہ اس سانحہ کی ہر سطح پر مذمت کی جارہی ہے ۔
اس لئے ضروری ہے کہ پنجاب حکومت شفاف طریقے سے تحقیقات کو آگے بڑھائے تاکہ تمام حقائق سامنے آسکیں، اس کے بعد حتمی رائے قائم کرتے ہوئے حکومت پنجاب فیصلہ کرے ۔فی الوقت جو صورتحال نظر آرہی ہے اس میں شواہد کچھ اور ہیں ، امید ہے کہ اس طرح کے عمل کے تدارک کیلئے اقدامات اٹھانے پر سوچ وبچار کیاجائے گا تاکہ واقعہ کے رونما ہونے کے بعد پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔