|

وقتِ اشاعت :   January 23 – 2019

اسلام آباد : سینیٹ کو بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریلیا، سعودی عرب، چین، امریکہ، متحدہ عرب امارات ، روس اور ترکی سمیت 18 ممالک کیساتھ برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے ۔پیر کو سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزارت تجارت کی طرف سے بتایا گیا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں 18 ممالک کیساتھ برآمدت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جن ممالک کے ساتھ برآمد ات میں کمی واقع ہوئی ہے ان میں آسٹریلیا، ملائشیا، چین، ہانگ کانگ،جنوبی کوریا،کینیڈا،امریکہ ،برازیل، کینیا، نائیجیریا، جنوبی افریقہ،سعودی عرب، یو اے ای، بحرین، ایران،افغانستان ،ترکی اور روس شامل ہیں۔ وزارت تجارت نے بتایا کہ آسٹریلیا کیساتھ 2013 میں 255 ملین ڈالرکی برآمدات ہوئی تھی جبکہ یہ 2018 میں کم ہو کر 212 ملین ڈالر ہوگئیں ۔

چین کے ساتھ 2013 میں 2416 ملین ڈالر برآمدت تھیں جو 2018 میں کم ہوکر 1741 ملین ڈالر کی ہوگئیں،امریکہ کیساتھ 2013 میں 3729 ملین ڈالر برآمدات تھی جو2018 میں گھٹ کر3694 ملین ڈالر ہوگئیں ۔ 

وزارت تجارت نے بتایا کہ سعودی عرب کیساتھ 2013 میں برآمدت 505 ملین ڈالر تھیں جو 2018 میں کم ہو کر 305 ملین ڈالر ہوگئیں، اسی طرح متحدہ عرب امارات کیساتھ 2013 میں 1724 ملین ڈالر کی برآمدات ہوئیں جو 2018 میں گھٹ کر 800 ملین ڈالر کی ہوگئیں۔اجلاس کے دور ان سینیٹر مشتاق کی جانب سے فاٹا سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس پر کہاگیا کہ اس وقت فاٹا میں انصاف کے حصول کا کوئی طریقہ کار واضح نہیں ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار کی باتیں ہورہی ہیں اسکا مطلب کہ نوجوان کو انتہاپسندی کی جانب راغب کیا جائے ۔انہوں نے کہاکہ اسوقت جو حالات فاٹا میں ہیں حکومت فاٹا میں اسکی راہ ہموار کررہی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ این ایف سی سمیت جو وعدے ھوئے ہیں کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا ۔ وزیرپارلیمانی امور علی محمد خان نے کہاکہ حکومت اپنے وعدوں کو وفا کرے۔ انہوں نے کہاکہ فاٹا کا قانون ختم ہوگیا لیکن قوانین بنائے گئے ان پر عملدرآمد کا معاملہ ہے ۔انہوں نے کہاکہ فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد ایک بہت بڑا کام ہے۔انہوں نے کہاکہ عمران خان کی حکومت فاٹا عوام سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کے کوشاں ہے ۔

انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے چھ ماہ کا وقت دیا ہے ۔ انہوکں نے کہاکہ چھ ماہْ سے قبل ہی قوانین بن جائیں گے مجسٹریسی نظام کو مکمل بحال کردیا جائیگا۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ کچھ دن پہلے اخبار میں اشتہار آیا جو چیف ایگزیکٹیو کی تقریرسے متعلق ہے۔ انہوں نے کہاکہ جس میں تعلیمی قابلیت ماسٹر کے علاوہ وار کورس اور نیول ٹرنینگ سرٹیفکیٹ اور متعلق ڈسلپن مانگی گئی۔ انہوکں نے کہا کہ کیااب پی آئی اے بحری شپ بھی چلائی جائیں گی؟اس وقت پی آئی اے میں 11افسران آرمڈ فورسسز سے ڈیپوٹیشن پر ہیں۔

اجلاس کے دور ان سینیٹر عثمان کاکڑ نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیااور کہاکہ ہرنائی کے لوگ کوئٹہ اور پھر کوئٹہ سے سبی تک جاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پہلے روزانہ دو ٹرینیں ہرنائی شہ رگ خوست جاتی تھی جس میں بنیادی طور پر ٹرین کوئلہ لے کے جاتی تھی۔ انہوں نے کہاکہ ٹریک اب کم از کم 80 ہزار سے ایک لاکھ تک کرایہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سالانہ بلکہ روانہ تین ہزار کوئلہ نکل رہا ہے ہرنائی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہرنائی میں سبزیات تین سیزن ہوتی ہیں۔

انہوکں نے کہاکہ ڈھائی سے تین ارب روپیہ مرمت پر خرچ ہوا۔ وزیر یلوے شیخ رشید احمد کی جانب سے بتایاگیا کہ جنوری 2006 میں دس پل کو اڑا دیا گیا سارے معاملات سے اتفاق کرتا ہوں،ایک دو ماہ کا کام اور ہے۔انہوں نے کہاکہ خود وزیر اعلی کے پاس گیا ہوں کہ اس ٹرین کی سیکیورٹی فراہم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے بغیر اس ٹرین کو چلانا ممکن نہیں۔ 

انہوں نے کہاکہ اکبر ایکسپریس کو 1 ہزار 92 پر کر دیا ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس ٹرین کی جانب راغب ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس سنگل کوچ بھی مسافروں کی اب موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ فریٹ ٹرینز کے لیے سیکیورٹی مل جائے ضرور چلائیں گے انہوں نے کہاکہ فریٹ ٹرینوں کی تعداد اس سال 20 کریں گے،20 ٹرینیں 100 دن میں چلائی 20 مزید چلائیں گے۔ 

انہوں نے کہاکہ ایک بار پھر کور کمانڈر اور وزیر اعلیٰ کے پاس چلا جاتا ہوں،بغیرسیکورٹی کے نہیں چلاسکتے۔ دریں اثناء سینیٹ اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین نے کہا ہے کہ صدرمملکت کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں عوامی مسائل پر بات کرنی چاہیے تھی، بلوچستان کی غربت اور بدحالی میں اضافہ ہو رہا ہے، بعض اراکین نے کہا کہ صدر مملکت کے پارلیمان سے خطاب کی روایت کو ختم کرنا چاہیے تاہم چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ صدر مملکت پارلیمان کا حصہ ہیں۔

منگل کو ایوان بالا میں صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر صلاح ترمذی نے کہا کہ صدارتی خطاب کی روایت کو ختم کرنا چاہیے، یہ ایک روایت بن چکی ہے، حکومت صدر کو تقریر لکھ کر دیتی ہے اور صدر تقریر کرتا ہے، حکومت اس کی تعریف اور اپوزیشن تنقید کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ صرف وقت کا ضیاع ہے، اگر اچھی روایت کی پیروی کی جائے تو بہت اچھا ہو گا۔

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ صدر پارلیمان کا حصہ ہے۔ سینیٹر میر کبیر محمد شاہی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں آرٹیکل 48 کو ختم کرنا چاہیے تھا، اب تمام پارٹیوں کے اکابرین کو مل کر اس آرٹیکل کے خاتمے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ 

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کو اپنی تقریر میں شہریوں کے ساتھ زیادتی کو اجاگر کرنا چاہیے تھا، انہیں بتانا چاہیے تھا کہ پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کیسے ہونے چاہئیں تاہم صدر نے اس حوالے سمیت کسی بھی معاملے پر بات نہیں۔

طاہر بزنجو نے کہا کہ صدر نے بلوچستان کے حوالے سے جو بات کی ہے صورتحال اس کے برعکس ہے، بلوچستان کی غربت اور بدحالی میں اضافہ ہو رہا ہے، وہاں پر ساٹھ فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ صرف 20 فیصد لوگوں کو صاف پانی تک رسائی حاصل ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے راستے بلوچستان سے نکلتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں غربت اور ناخواندگی سب سے زیادہ ہے، بعض حلقے اٹھارویں ترمیم کو 6 نکات قرار دے رہے ہیں، ہم اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں۔سسی پلیجو نے کہاکہ صدر نے سندھ کے پانی کے معاملہ پر بات نہیں کی، انہیں صوبے کے مسائل پر بھی بات کرنی چاہیے تھی جس سے ان کا تعلق ہے۔ 

سینیٹر محمد اکرم نے کہا کہ صرف انصاف سے پسماندہ علاقے ترقی نہیں کر سکتے، فنڈز اور توجہ کی بھی ضرورت ہے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہمارے ہمسایوں سے تعلق خراب ہوتے جا رہے ہیں، وزرا نے اعلانیہ کہا ہے کہ بلوچستان سے سی پیک کو کچھ نہیں ملا۔ 

سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ صدر مملکت کو صوبوں میں جا کر پورے ملک کی آواز سننی چاہیے، وہ وفاق کی علامت ہیں، صدر کو اہم ایشوز پر حکومت کی رہنمائی کرنی چاہیے، آج صوبے ایک دوسرے اور وفاق کے ساتھ تنازعے میں ہیں، ہمیں اپنے معاملات کو حل کرنا ہو گا۔