بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے بائیکاٹ کو چالیس روز سے زائد دن گزرگئے ہیں ،نیورو سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی عدم بازیابی کیلئے یہ احتجاج جاری ہے ۔ڈاکٹر تنظیموں کے مطابق گزشتہ 8 سالوں کے دوران 33 ڈاکٹرز اغواء ہوئے ہیں، 18 ڈاکٹروں کو قتل کیا گیا،100 کے قریب ڈاکٹر عدم تحفظ کی وجہ سے صوبہ چھوڑ کر جاچکے ہیں اور اب بھی ڈاکٹروں کی بڑی تعداد خوف کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں اپنا تبادلہ کرانے کی درخواستیں دے رہے ہیں۔
ڈاکٹرز تنظیموں کا کہنا ہے کہ جتنے بھی ڈاکٹربازیاب ہوئے ہیں وہ سب تاوان دے کر ہی گھر لوٹ آئے ہیں ،اس میں حکومتی کردار زیرو رہا ہے ، اب بھی صورتحال اسی طرح ہے، ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی کے حوالے سے خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس سے ڈاکٹروں کو تسلی ملے۔
بلوچستان میں صورتحال انتہائی گھمبیر ہے لیکن ملک کے دیگر حصوں میں اس کی گونج سنائی نہیں دیتی ۔یہاں کی سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ سے اس بات کا شکوہ رہا ہے کہ بلوچستان کے اہم مسائل کو کبھی بھی اس طرح سامنے نہیں لایا جاتا جس طرح دیگر علاقوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، اب تو یہ شکوہ بلوچستان زبان زدعام ہے کہ اس بدقسمت صوبہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔
بلوچستان کا ذکر ہمیشہ اس وقت ہوتاہے جب اسکے بے پناہ وسائل سے فائدہ اٹھانے کی بات ہو یا اس کی جغرافیائی اہمیت یاد آئے ۔ اورآج کل اس کی شہرت سی پیک کی وجہ سے ہے مگر یہاں کے لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہیں کسی نے گہرائی میں جاکر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ چالیس روز سے زائد سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا احتجاج کوئی کم دورانیہ نہیں۔
جس طرح یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ پنجاب، سندھ اور کے پی میں جب اس طرح کا احتجاج ڈاکٹربرادری یا نرسز کرتے ہیں تو اس ایشو کو قومی بنایاجاتا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ڈاکٹر برادری سے وفاقی سطح پر بھی کسی نے رابطہ نہیں کیا کہ انہیں کس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔
بلوچستان میں گزشتہ آٹھ سالوں سے بڑے پیمانے پر ڈاکٹروں کی اغواء کاری، تاوان کی وصولی، ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے جس کا نوٹس تک نہیں لیا گیا۔ بلوچستان میں صرف دو سرکاری سول سنڈیمن اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں علاج معالجے کے حوالے سے سہولیات موجود ہیں جہاں صوبہ کے دور دراز خاص کر پشتون علاقوں سے سینکڑوں غریب علاج کی غرض سے آتے ہیں مگر اس احتجاج کے باعث وہ مایوس ہوکر واپس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ۔
کیونکہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔آج بلوچستان کے ڈاکٹر اپنے تحفظ کیلئے سڑکوں پرنکلنے پر مجبور ہیں اور عوام علاج کیلئے درپہ در ہیں۔ افسوس کہ بلوچستان جسے آنے والے وقت میں معاشی گیم چینجر کے طور پر دیکھا جارہا ہے مگر یہاں کے مسائل سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے بیگانگی اختیار کررکھی ہے ۔
حکومت یااپوزیشن دونوں کا کوئی کردار بلوچستان میں نظر نہیں آتا کہ یہاں کے بنیادی مسائل کیلئے آواز بلند کریں ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ بلوچستان میں ڈاکٹروں کے اغواء کے پیچھے اغواء کاروں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک عرصہ دراز سے کام کررہا ہے جن کا تعلق یہاں سے نہیں ہے بلکہ یہ وہ عناصر ہیں جن کی مہمان نوازی بلوچستان کرتی آئی ہے مگر اس کا صلہ بدامنی کی صورت میں دیاجارہا ہے۔
بارہا اس اہم نقطہ کی جانب نشاندہی کی گئی ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کیاجائے مگر اس معاملے کو ہمیشہ سردخانے کی نظر کیا جاتا ہے، آخر کب تک بلوچستان کے عوام یہ ظلم سہتے رہینگے۔
لہٰذا حکومت ڈاکٹروں کے تحفظ اور مغویوں کی بازیابی کیلئے سخت احکامات جاری کرتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرے اور اس میں ملوث عناصرکے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے بلوچستان کے عوام کو مشکلات سے نجات دلائے۔
بلوچستان کے ڈاکٹر سڑکوں پر،عوام درپہ در
وقتِ اشاعت : January 25 – 2019