بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ،ہر عام وخواص اس بات سے واقف ہے کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے اسمگلنگ کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیاء ملک کے مختلف علاقوں تک سپلائی کی جاتی ہیں۔
گزشتہ دور حکومت میں سانحہ گڈانی موڑ رونما ہوا تھا جس میں 35 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور انہیں لاوارث قرار دے کردفنا دیا گیا تھا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکومت نے ٹیسٹ کے پیسے نہیں دیئے تھے جس کی وجہ سے ان کی شناخت نہیں ہوسکی تھی، اس وقت کے وزیر سے جب یہ پوچھا گیا کہ 35 افراد کی شناخت اب تک نہیں ہوسکی اور حکومت نے پیسے نہیں دیئے جس کی وجہ سے ٹیسٹ کا عمل آگے نہیں بڑھا جس سے سابق وزیر مکمل لاعلم نظر آئے جو یقیناًبڑے تعجب کی بات ہے مگر سب سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر نے کہاکہ بلوچستان سے پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ پر پابندی کی مخالفت کرونگا ۔
کیونکہ ہمارے لوگوں کے بیشتر کا ذرائع معاش اسی سے وابستہ ہے ،اگر اس پر پابندی لگ جائے گی تو ہزاروں لوگ بیروزگار ہوجائینگے۔ بلوچستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ میں مافیا ملوث ہیں جو عرصہ دراز سے یہ کاروبار کرتے آرہے ہیں جن کا نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے جن کی پشت پناہی سیاستدانوں کے بغیر ممکن نہیں اور اسی طرح درجنوں چیک پوسٹوں سے یہ گاڑیاں گزرتی ہیں تو اس میں بھی کوئی ابہام نہیں کہ ان کے نظروں کے سامنے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔،
سانحہ گڈانی موڑ پر کمشنر قلات کی رپورٹ میں سب کچھ واضح درج تھا مگر ذمہ داروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا جس کی وجہ سے آج سانحہ حب رونما ہوا۔ اب پھر کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے جس کے بعد رپورٹ سامنے آئے گی مگر یہ سلسلہ رکنے والا نہیں کیونکہ اس سے بااثر لوگوں کے اربوں روپے کا کاروبار وابستہ ہے اوروہ اسے ختم نہیں کرنے دینگے۔
گزشتہ روز حکومت بلوچستان نے تمام مسافر بسوں، ویگنوں اور گاڑیوں میں پیٹرول و ڈیزل لیجانے پر فوری طور پر پابندی عائد کردی ،صوبائی وزیر ظہور بلیدی کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے پیٹرول اور ڈیزل کی ٹرانسپورٹیشن انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے، پبلک ٹرانسپورٹ میں پیٹرول اور ڈیزل لے جانے کی کسی بھی طور اجازت نہیں دی جا سکتی، بس، ویگن مالکان مسافروں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ایسے اقدامات سے گریز کریں۔
عوام پیٹرولیم مصنوعات لے جانے والی گاڑیوں میں سفر سے اجتناب کریں ،تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز،متعلقہ حکام کوواضح ہدایت کی گئی ہے کہ حکومتی احکامات پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنا ئیں۔گزشتہ حکومت کے دوران بھی یہی اعلامیہ جاری ہوا تھا مگر چند ماہ کے بعد غریبوں کے قبر کی مٹی خشک ہوتے ہی یہ مافیا پھر سرگرم ہوگئی۔
بلوچستان میں سرحدی علاقوں سے پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ صرف بااثر افراد کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے، بلوچستان کے عام عوام اس میں ملوث نہیں البتہ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں انہیں دی جاتی ہیں مگریہ اربوں روپے کا کاروبار ہے ۔ بلوچستان کے اس انٹرنیشنل روٹ میں سب سے بڑی کمائی پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ ہے ۔
حکومت واقعی اس معاملے کو سنجیدگی سے لیکر اسے ختم کرنا چاہتی ہے تو ایران کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی سستے داموں فراہمی کی پیشکش قبول کرے جو کہ معاشی حوالے سے بہت بڑی تبدیلی کا باعث بنے گی اوراس سے اسمگلنگ کا راستہ بند ہوجائے گا۔خدارا ان بااثر اسمگلروں سے بلوچستان کے عوام کو چھٹکارا دلائیں، یہ غریب عوام پرایک بہت بڑا احسان ہوگا۔
سانحہ حب،اسمگلر مافیاپھر سرگرم
وقتِ اشاعت : January 27 – 2019