کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی میں ساہیوال اور خیسور میں پیش آنے والے واقعات سے متعلق مذمتی قرارداد اور لیویز فورس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے متعلق قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس تقریباً ایک گھنٹے کی تاخیر سے پینل آف چیئر مین کے رکن اصغرخان اچکزئی کی زیر صدارت شروع ہوا ۔
اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران جمعیت العلماء اسلام کے سید فضل آغا ، میر یونس عزیز زہری ،عبدالواحد صدیقی ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی اور اختر حسین لانگو نے اس بات پر شدید احتجاج کیا کہ ان کی جانب سے جو سوالات جمع کرائے جاتے ہیں انہیں ایوان میں تاخیر سے لایا جاتا ہے اورایوان میںآنے کے بعد وزراء موجودنہیں ہوتے جس کے باعث انہیں مسلسل موخر کیا جاتا ہے ۔
سید فضل آغا نے کہا کہ سوالات مسلسل موخر ہوتے ہیں کیونکہ وزراء صاحبان موجود نہیں ہوتے اگر متعلقہ وزیر نہ ہو تو وہ اپنی جگہ کسی دوسرے وزیر کو پابند کرسکتا ہے کیونکہ یہ وزراء کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ یہاں پوچھے جانے والے سوالات کے جواب دیں اوراراکین کو مطمئن کریں ۔میر یونس عزیز زہری نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں وزراء نہیں آتے جبکہ دیگر تقاریب میں موجود ہیں ۔
آج سی ایم ہاؤس میں سارے وزراء موجود تھے پکوڑے اورکیک کھاتے رہے کھانے کے دوران تو موجود ہوتے ہیں مگر جب سوالات کی باری آتی ہے تو غائب ہوجاتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت چلانے کے اہل نہیں یا تو حکومت چھوڑ دیں یا پھر ہمارے سوالات کے جواب دیں اس طرح حکومت نہیں چلتی نہ ہی چلے گی ۔جس پر صوبائی مشیر عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ پکوڑے سب نے کھائے ہیں ہم نے کھائے تو آپ کو بھی کھلائے ہیں البتہ میں آپ کے بعض نکات سے اتفاق کرتا ہوں یہاں جو سوالات آتے ہیں ۔
ان کے جواب بروقت دیئے جانے چاہئیں سوالات کے جوابات بھی آجاتے ہیں متعلقہ وزراء کو موجود ہونا چاہئے تاکہ کوئی ضمنی سوال آئے تو اس کا جواب دیا جاسکے انہوں نے اپوزیشن بینچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ضمنی سوال دو سے تین ہوسکتے ہیں مگر یہاں اس پر ہر رکن مسلسل سوال اٹھاتا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے اصلاحات آپ کو بھی لانی ہوں گی ۔
ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ ہم جو سوالات جمع کراتے ہیں وہ یہاں نہیں آرہے ایسا کیوں ہورہا ہے اس کا جواب چاہئے ،بی این پی کے اختر حسین لانگو نے بھی سوالات مسلسل موخر کرنے پر تشویش کااظہار کیا مطالبہ کیا کہ ایوان میں لائے جانے والے سوالات کے بروقت جوابات دیئے جائیں عبدالواحد صدیقی نے کہا کہ کل کے اجلاس میں دنیش کمار متحرک تھے مگر آج وہ بھی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ۔
بعدازاں اجلاس کی صدارت کرنے والے اصغرخان اچکزئی نے وقفہ سوالات 31جنوری تک ملتوی کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت اور متعلقہ وزراء کی ذمہ داری ہے کہ وہ بروقت جواب دیں وزراء صاحبان تیاری کرکے آئیں اور ایوان کو مطمئن کریں وہ پابند ہیں کہ ہر جواب کا اطمینان بخش جواب دیں ۔
اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے بلوچستان عوامی پارٹی کے بشریٰ رند نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے تحفظات کااظہار کیا گیا تھا جس کے بعد میں نے رخشان ہاؤسنگ سکیم کا خود دورہ کیااور سائٹ پر گئی جہاں دیواریں گرائی گئیں اور جو دیواریں گرائی گئیں وہاں کوئی رہائش پذیر نہیں تھا بلکہ یہ حکومت کی زمین ہے ۔
انہوں نے کہا کہ کیوڈی اے کی مذکورہ اراضی 22ارب روپے کی ہے حکومت کی زمین پر کوئی قبضہ نہیں کرسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سریاب کو ترقی دینا چاہتے ہیں جہاں پانچ سال میں کوئی کام نہیں ہوا کسی نے سریاب کے لوگوں کے روزگار دیا اور نہ ہی ترقی دی آج جب ہم اس علاقے کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو اعتراض ہورہا ہے ۔
پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے بشریٰ رند کی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا کہ ان کے الفاظ درست نہیں تھے یہ واپس لئے جائیں انہوں نے کہا کہ مغربی بائی پاس اور مشرقی بائی پاس پر قبائل کی اپنی زمینیں ہیں جن سے بے دخلی کے لئے انہیں نوٹسزدیئے گئے ہیں ۔
زمینیں ان سیٹلٹڈ ہیں مگر یہ قبائل کی ملکیت ہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انگریز دور میں جب ریلو ے لائن بچھائی گئی تب قبائل کو پیسے دے کر ان کی زمین ریلوے لائن کے لئے حاصل کی گئی ہمارا سوال یہ ہے کہ کیوڈی اے کو بائیس ارب روپے کی زمین کس نے دی ۔
بی این پی کے اختر حسین لانگو نے بھی بشریٰ رند کی بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں دو چیزوں کو مکس کیا جارہا ہے درخشاں ہاؤسنگ سکیم کی زمین پر کسی نے قبضہ کیا ہے اور کیوڈی اے نے کارروائی کی ہے تو وہ الگ بات ہے مگر ان سیٹلڈ زمینوں سے لوگوں کو بے دخل کرنا ناانصافی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کس طرح سے قبائل کو یہ نوٹس دے سکتے ہیں کہ آپ تین دن میں یہ زمینیں خالی کردیں ۔ بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ محترمہ بشریٰ رند کو غلط بریفنگ دی گئی ہے انہوں نے کہا کہ جس علاقے کا ذکر کیا جارہا ہے میں وہاں کا عوامی نمائندہ ہوں اگر دورہ کرنا تھا تو مجھے بھی ساتھ لیا جاتا تاکہ ساری صورتحال واضح ہوجاتی ۔
بعدازاں چیئر مین اصغرخان اچکزئی نے کارروائی سے غیر پارلیمانی الفاظ حذف کرانے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے پر گزشتہ روز سپیکر کی جانب سے رولنگ آچکی ہے اور کمیٹی بھی بنائی جاچکی ہے جو اس معاملے کودیکھے گی ۔
اجلاس میں انجینئر زمرک خان اچکزئی ، ملک نعیم خان بازئی ، نصراللہ زیرئے ، اصغرخان اچکزئی کی مشترکہ مذمتی قرار داد پیش کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کی شاہینہ بی بی نے کہا کہ گزشتہ دنوں شمالی وزیرستان کے علاقے خیسور اور پنجاب کے شہر ساہیوال میں انتہائی افسوسناک واقعات پیش آئے جن پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جتا ہے کیونکہ ان افسوسناک واقعات سے ہر صاحب اولاد کا دل لرز کر رہ گیا ہے ۔
ان واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے جبکہ اس سے قبل روشنیوں کے شہر کراچی میں نقیب اللہ کا واقعہ بھی پوری قوم کے سامنے ہے جس پر شدید احتجاج بھی ہوا مگر صد افسوس کہ اب تک نقیب اللہ شہید قتل کے مرکزی ملزم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا جس سے لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔
قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت ، سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں سے رجوع کرے کہ وہ نہ صرف ساہیوال اور خیسور میں پیش آنے والے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نقیب اللہ شہید قتل کیس کے مرکزی ملزم کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ عوام کو تحفظ کا احساس دلاتے ہوئے مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا سدباب ممکن بنایا جاسکے ۔
قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ جن واقعات کا قرار داد میں تذکرہ کیا گیا ہے وہ ہر حوالے سے قابل مذمت ہیں ان واقعات کی تحقیقات کے لئے اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہئیں ۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال جنوری میں کراچی میں نقیب اللہ کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا اس کیس کے مرکزی ملزم نے 444ماورائے عدالت قتل کئے ہیں مگر اب انہیں ہتھکڑی نہیں لگی اس دوران پی ٹی ایم کا قیام عمل میں آگیا ہے ایوان اس قرار داد کو منظور کرے ۔ صوبائی مشیر عبدالخالق ہزارہ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پولیس کو عوام دوست بنانا چاہئے اور ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں کہ ہمارے عوام پولیس کے پاس جانے سے ڈرنے کی بجائے خوش ہوں ۔
بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی نے بھی قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ چادر اور چاردیواری کے تقدس کی پامالی کے واقعات افسوسناک ہیں اس طرح کے واقعات بلوچستان میں بھی پیش آتے رہے ہیں بی این پی کے 80سے زائد سینٹرل کمیٹی کے ممبران اور رہنماء شہید کئے گئے ۔
اخترحسین لانگو نے کہا کہ چند سال قبل ایسے بھی واقعات پیش آئے کہ کوئٹہ میں جب بلوچ اکثریتی علاقوں میں کوئی واقعہ رونما ہوتا تو ایک ہی رات میں سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کرکے تھانے میں بند کردیا جاتا تھا انہوں نے کہا کہ ہمیں مذمتی قرار دادوں سے ایک قدم آگے جانا چاہئے اور جو مخصوص مائنڈ سیٹ ہے اور جو رویہ ہے اس رویے کو تبدیل کریں یہ رویہ مذمتی قرار داد سے نہیں بلکہ ایڈ منسٹریٹوآرڈر کے ذریعے تبدیل ہوگا ۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن قادر علی نائل نے کہا کہ ہم اس قرار داد کی حمایت کرتے ہیں اور بتادینا چاہتے ہیں ہم سال بارہ مہینے سوگ میں رہتے ہیں تین روز قبل 26جنوری کو ہماری پارٹی کے چیئر مین حسین علی یوسفی کی برسی تھی جنہیں دن دیہاڑے کوئٹہ شہر میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی کے واقعات کوئٹہ شہر میں بھی پیش آتے رہے ہیں ۔
جے یوآئی کے سیدفضل آغا نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے تاہم ایوان میں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے کہ بلوچ شہید ہوئے یا پشتون اور ہزارہ شہید ہوئے بلکہ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اس وقت ہمارے ملک کو بہت زیادہ خطرات درپیش ہیں افراتفری ہے اندرونی دشمن بھی ہیں بیرونی دشمن بھی لگے ہوئے ہیں ایسے حالات میں تمام اداروں کو احتیاط سے کام لینا چاہئے اور چادر وچادریواری کے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے ۔
بعدازاں ایوان نے قرار داد منظور کرلی ۔اجلاس میں انجینئر زمرک خان اچکزئی ، ملک نعیم خان بازئی ، اصغرخان اچکزئی ، نصراللہ زیرئے ،ملک نصیر شاہوانی اور شاہینہ بی بی کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے صوبائی مشیرملک نعیم خان بازئی نے کہا کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اور وسیع و عریض صوبہ ہونے کے ناطے بلوچستان کا قبائلی اور سماجی سیٹ اپ بھی ملک کے دیگر صوبوں سے الگ اورممتاز خصوصیات کا حامل ہے جس پر ذرا سی توجہ دے کر ہم اس صوبے کو زیادہ پرامن اور سماجی حوالے سے مطمئن صوبہ بنا سکتے ہیں ۔
ہمارا صوبہ ماضی قریب تک ملک کا سب سے زیادہ پرامن صوبہ رہا ہے اس بات میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے صوبے میں قیام امن کے لئے اپنا فعال کردار ادا کررہے ہیں تاہم یہاں لیویز فورس کا خصوصی تذکرہ ضروری ہے کیونکہ لیویز فورس صوبے کے پشتون اور بلوچ روایات ، اقدار اور قبائلی معاشرے کے تمام حقائق سے باخبر فورس ہے ۔
لیویز فورس کا صوبے میں امن وامان کی بحالی میں انتہائی اہم کرداررہا ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوبے کے بعض علاقے بالخصوص ضلع خضدار کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ماضی میں لیویز فورس کو ختم کیا گیا مگر امن وامان کے پیش نظر اسے دوبارہ بحال کرنا پڑا ۔
صوبے میں پولیس کے زیرانتظام علاقوں کے مقابلے میں لیویز کے زیرانتظام علاقوں میں بدامنی کے واقعات کم رونما ہوتے ہیں جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے صوبے میں نوے فیصد سے زائد علاقے لیویز کے زیرانتظام آتے ہیں جبکہ دس فیصد سے بھی کم علاقے پولیس کے زیرانتظام ہیں مگر کرائم ریٹ اٹھا کر دیکھیں تو آٹھ سے دس فیصد علاقے جو پولیس کے زیرانتظام ہیں ان میں رونما ہونے والے واقعات لیویز کے زیرانتظام علاقوں سے بہت زیادہ ہیں ۔
لہٰذا ان زمینی حقائق کے پیش نظر صوبائی اسمبلی کا ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ بلوچستان بھر میں لیویز فورس کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اسے جدید وسائل مہیا کرے نیز صوبے کے اے ایریاز میں کمی لاتے ہوئے لیویز فورس کے زیرانتظام علاقوں کو مزید توسیع دی جائے نیز صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے اور وفاقی لیویز کو بھی صوبائی لیویز کی طرز پر جدید وسائل اور ٹریننگ فراہم کی جائے تاکہ صوبے کی قبائلی روایات ، رسوم و رواج سے ہم آہنگ فورس کے ذریعے صوبے کو اس کا سابقہ امن دوبارہ دلایا جاسکے ۔
اپوزیشن رکن نصراللہ زیرئے نے کہا کہ جنرل مشرف کے دور آمریت میں کوشش کی گئی کہ صوبائی خودمختاری پر ڈاکہ ڈالا جائے انہوں نے اپنے دور حکومت میں ڈسٹرکٹ ناظمین کا نظام نافذ کرایا اور لیویز کو پولیس فورس میں ضم کرنے کی کوشش کی اگر دیکھا جائے تو لیویز فورس نے ہر علاقے میں امن وامان کی صورتحال میں بڑا کردار ادا کیا ہے مگر وہ اپنے عزائم کو تقویت دینے کے لئے لیویز سسٹم کو ختم کرکے پولیس سسٹم لانا چاہتے تھے ۔
اگر دیکھا جائے تو صوبے کا نوے فیصد علاقہ لیویز کے کنٹرول میں ہے تاہم بدقسمتی سے لیویز فورس کے لئے وہ جدید آلات فراہم نہیں کئے گئے جس سے وہ جدید حالات میں دہشت گردوں کا مقابلہ کریں لیویز کی ٹریننگ اور تنخواہیں پولیس سے بہت کم ہیں انہوں نے کہا کہ صوبے کا دس فیصد علاقہ جو کہ پولیس کے زیرکنٹرول ہے وہاں جرائم کی شرح زیادہ ہے جس کی واضح مثال ساہیوال کا واقعہ ہے جس میں پولیس فورس نے سرعا م ایک گاڑی کو نشانہ بنایا اور ایک خاندان کو قتل کرڈالا ۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت لیویز نظام کو جدید خطوط پر استوا ر کرنے کے لئے مزید موثر اقدامات اٹھائے ۔ بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ ماضی میں ایک منصوبے کے تحت کچھ علاقوں کو باقاعدہ طو رپر پولیس میں ضم کیا گیا زیادہ مراعات دی گئیں لیکن جب نتائج سامنے آئے تو کرائم کی شرح سب سے زیادہ انہی علاقوں میں تھا ضلع خضدار پرامن علاقوں میں شمار ہوتا تھا لوگ سیروسیاحت کے لئے خضدار جاتے تھے ۔
جب ضلع خضدار کو پولیس ایریا میں شامل کیا گیا تو کراچی جانے والے دن میں بھی سفر کرنے سے ڈرنے لگے بلوچستان میں بہت تجربات کئے گئے مگر وہ تمام تجربے عارضی ثابت ہوئے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود وہ نظام فیل ہوگیا جو لوگ بلوچستان پر لاگو کرنا چاہتے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر لیویز فورس کو جدید ٹریننگ ، اسلحہ اور دیگر جدید آلات فراہم کئے جائیں تو یہ فورس مقابلہ کرسکتی ہے لیویز نظام کو نہ چھیڑا جائے ۔ وزیراعلیٰ میر جام کمال نے کہا کہ لیویز فورس کی استعداد بڑھانے کے لئے پہلے کابینہ اجلاس میں ہی میں فیصلے کئے گئے ۔
لیویز کو انویسٹی گیشن ، بم ڈسپوزل اور انکوائری کی تربیت دی جائے گی ، لیویز کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے دو مہینوں سے کام جاری ہے انہوں نے کہا کہ لیویز فورس کو مزید بہتر بنانے کے لئے موجودہ حکومت اقدامات اٹھارہی ہے اور ایک دو سال میں مزید بہتری آئے گی ۔
محکمہ داخلہ کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں کہ وہ مزید بہتر اقدامات کرے تاکہ لیویز نظام کو مزید موثر بنایا جاسکے ۔بعدازاں قرار داد کو متفقہ طو رپر منظور کرلیا گیا ۔اجلاس میں بلوچستان کے معدنی و قدرتی وسائل سے متعلق واضح و جامع حکمت عملی سے متعلق گزشتہ روز موخر ہونے والی بحث کاآغاز کرتے ہوئے جمعیت العلماء اسلام کے یونس عزیز زہری نے کہا کہ خضدار میں 1974ء میں صوبائی حکومت اور پی پی ایل کے تحت ایک معاہدے کے بعد خضدار میں پی پی ایل کو 316ایکڑ اراضی لیز پر دی گئی ۔
جس کی آمدن میں دونوں کا حصہ نصف نصف تھا یہ منصوبہ خضدار کے علاقے فیروز آباد میں شروع کیا گیا لیکن آج بھی فیروز آباد کے عوام پانی سمیت تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں شروع میں یہ معاہدہ صرف بیرائیٹ سے متعلق تھا مگر اب پی پی ایل نے اس کا دائرہ زنک اور لیڈ تک وسیع کردیا ہے مگر عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات باعث افسوس ہے کہ پی پی ایل خضدار میں عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے معاہدے پر عمل نہیں کررہی مگر حکومت اس کی حمایت کررہی ہے بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر اکبرمینگل نے کہا کہ دنیا میں یا تو ان اقوام نے ترقی کی جن کے پاس معدنی وسائل تھے یا جنہوں نے تعلیم پر توجہ دی ہم وسائل رکھنے کے باوجود پسماندگی کا شکار ہیں ہم غریب نہیں مگر ہمیں اسلام آباد کی پالیسیوں نے غریب بنایا ہے ۔
ہمیں اپنے صوبے کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے نیچرل ریسورس پالیسی بنانی ہوگی سیندک پر دو دہائیوں سے کام چل رہا ہے مگر سیندک پر کام کرنے والی کمپنی نے آج تک وہاں کے عوام کو کوئی سہولت فراہم نہیں کی ہم ایک بہتر پالیسی بنا کر ہی اپنی آنے والی نسلوں کی ترقی کے لئے اپنا وسائل کو استعمال کرسکتے ہیں معدنی وسائل کے حوالے سے صوبے کے عوام کو اعتماد میں لیا جائے ۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ اگر ہمارے معدنی وسائل کا جائزہ لیا جائے تو صرف ریکوڈک میں چار اعشاریہ پانچ بلین کے ذخائر موجود ہیں ایک ملین ٹن سے زائد کرومائیٹ ، 275ملین ٹن آئرن ، 300ملین ٹن کوئلے سمیت پچاس سے زائد معدنیا ت موجود ہیں ۔
ہم صرف چودہ ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کررہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس ڈیم نہیں ہیں ڈیموں کی تعمیر کے لئے ہمیں دس کھرب روپے کی ضرورت ہے جو ہمارے پاس نہیں ہیں جبکہ فرسودہ طریقے سے کوئلہ نکال رہے ہیں جس کی وجہ سے آئے روز حادثات ہورہے ہیں ہم اپنے قدرتی معدنیات کو بھی درست انداز میں استعمال نہیں کررہے ان کے درست استمال کو یقینی بنانے ک یلئے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادر علی نائل نے کہا کہ پوری دنیا میں معیشت اور معاشی حوالے سے پوری دنیا میں ایک جنگ جاری ہے اور ہم بھی اس کا حصہ بنتے جارہے ہیں دنیا کے بڑے ممالک غریب ممالک کا رخ کررہے ہیں جن کا مقصد غریب ممالک کے وسائل سے استفادہ کرنا ہے ہمارے ہاں ماضی میں مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا منرل پالیسی پر کام ہورہا ہے تو اس حوالے سے تمام لوگوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔
اس سلسلے میں سکول سے یونیورسٹی کی سطح تک بچوں خو معندیات کے حوالے سے تعلیم دی جائے اور یونیورسٹی کی سطح پر منرلز کے حوالے سے انہیں انٹرن شپ کی سہولت دی جائے نیچرل ریسورس اور منرل پالیسی میں جدید پالیسی سے استفادہ کیا جائے کان کنی کو جدید انداز میں استوار کیا جائے ۔
جمعیت العلماء اسلام کے زابد ریکی نے کہا کہ میرے حلقے میں پی پی ایل ایک منصوبے پر آٹھ نو سال سے کام کررہی ہے مگر ماشکیل سمیت پورے ضلع واشک میں کوئی کام نہیں کیا ہے ۔بلکہ زرعی اراضی کو بھی بلڈوزر چلا کر خراب کیا ہے اس صورتحال کو دیکھا جائے ۔
جمہوری وطن پارٹے کے نوابزادہ گہرام بگٹی نے کہا کہ پی پی ایل ہو یا او جی ڈی سی ایل ان سے ہمارا تعلق کافی پرانا ہے 1952ء میں ڈیرہ بگٹے سے گیس دریافت ہوئی ہم نے پورے ملک کو گیس فراہم کی مگر ہمارے ضلع کے عوام آج بھی لکڑیان جلانے پر مجبور ہیں ہم اپنے حقوق کس سے مانگیں ۔
پی پی ایل اربوں روپے کمارہی ہے مگر عوام کی سہولت کے لئے کوئی اقدامات نہیں کررہی ہے۔جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ بلوچستان کے وسائل آج سے نہیں بلکہ ستر سالوں سے لوٹے جارہے ہیں ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان وفاق سے ان معاملات پر بات کریں اور ہم اپوزیشن بھی قومی معاملات پر بھرپور ساتھ دیں گے اپوزیشن رکن احمد نواز بلوچ نے کہا کہ جہاں سے معدنیات نکالی جارہی ہیں وہان ترقیاتی کام ہونا چاہئے مچھ کے مقام پر تیل و گیس کے ذخائر دریافت ہوئے مگر مقامی قبائل کو ترقی دینے کی بجائے بے دخل کیا جارہا ہے ۔
عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ بدقسمتی کہوں یا خوش قسمتی کہوں کہ ہم اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں پر قدرت نے ہمیں وسائل سے مالامال کیا ہے مگر وفاق کی جانب سے جو رویہ اپنا یا جارہا ہے وہ انتہائی غیر جمہوری ہے سی پیک کے نام پر ہمیں ددھوکہ دیا گیا گوادر کی بدولت ہی سی پیک کا وجود ہے وفاق کو معلوم ہے کہ سی پیک کے معاملات پر وہ چین کے ساتھ معاہدے کررہے ہیں مگر ہماری حکومت اور صوبے کو بے خبر رکھا جارہا ہے ۔
وفاق کو چاہئے کہ وہ بلوچستان کے قومی معاملات پر حکومت او راپوزیشن جماعتون کو اعتماد میں لے او رہمیں ہمارے حقوق دیئے جائین ہمین مسائل میں گھیرا جارہا ہے سانحہ8اگست ہو یا پھر کھڈ کوچہ جیسے واقعات ہونے کے باوجود ہمیں خوف کے سائے میں رکھا گیا ہمیں خوف سے نکلنا ہوگا لیویز فورس صدیوں سے چلا آرہا ہے اور لیویز فورس میں ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں جو کہ قبائلی روایات کو مد نظر رکھ کر امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول کررہے ہیں ۔
آج بھی ہمیں پتہ ہے کہ لیویز فورس سے متعلق فائل پر ٹیگ لگائے جارہے ہیں 90فیصد علاقے میں امن ہے اور دس فیصد علاقے میں امن وامان کی صورتحال آج بھی بہتر نہیں ہے اور کرائم کی شرح بھی دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے راؤ انوار پر کیس ثابت بھی ہوئے کہ وہ نقیب مسعود کے قاتل ہیں مگر ریٹائرڈ منٹ کے بعد آزاد گھوم رہے ہیں ہمارے اکابرین نے قربانیاں دی ہیں اور ہم نے شہداء دیئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے اوپر زمین کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ۔
اصغرخان خان اچکزئی نے کہا کہ وسائل کے دفاع کے لئے اکٹھاہونا چاہئے پھر کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتا ۔ ہم صوبے کے باسی ہیں اور مسائل کا ڈٹ کرمقابلہ کرنا چاہئے حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر ایسی پالیسی وضع کرے کہ جو صوبے کے مفاد میں ہو ۔
انہوں نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے باوجود ہماری حکومت کو اختیار نہیں کہ و ہ ایران اور افغانستان کے ساتھ معاہدے کرے جبکہ دوسری طرف پنجاب حکومت بھارت سمیت دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے کررہی ہے جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں تو ہمیں غدار کہتے ہیں اور دوسری طرف لوگ ہر معاملے پر ان کے ساتھ بات چیت کرنے کا حق رکھتے ہیں تو ان کو کچھ نہیں کہا جاتا۔
بلوچستان اسمبلی اجلاس ، لیویز فورس کو جدید خطوط پر استوار کرنیکی قرار داد منظور
وقتِ اشاعت : January 30 – 2019