بلوچستان میں جتنے بھی میگا منصوبوں پر ماضی میں کام ہوا، اس میں ہونے والے تمام معاہدوں میں صرف وفاقی حکومت کا کرداررہا ہے، صوبائی حکومت کو ان معاملات میں کبھی بھی اعتماد میں نہیں لیاگیا جو مرکز اور بلوچستان کے درمیان دوری کا سبب بنا جس کے انتہائی منفی نتائج برآمد ہوئے۔
بلوچستان کی سیاسی قیادت کا ہر وقت یہی مطالبہ رہا ہے کہ یہاں کے وسائل کافائدہ سب سے پہلے مقامی لوگوں کو ملنا چاہئے اور معاہدوں میں برائے راست بلوچستان کو شامل کرنا ضروری ہے مگر اس مطالبہ کو ہمیشہ غلط انداز میں لیا گیا۔ گزشتہ حکومت کی مثال ہمارے سامنے ہے جب تک ریکوڈک جیسے اہم منصوبے سے مالی فائدہ پہنچ رہا تھا تو وفاق اور کمپنی فائدہ اٹھارہے تھے جبکہ بلوچستان کو صرف دو فیصد ملتا رہا ۔
صوبے کے جس علاقے سے وسائل نکل رہے ہیں ،وہاں کمپنیاں کام کررہی ہیں اور وفاق فائدہ اٹھاتا رہا ہے لیکن وہاں کوئی انفراسٹرکچر نظر نہیں آتی جس کی تعمیر وفاقی حکومت اور کمپنی کی ذمہ داری بنتی ہے،وفاقی حکومت کی ناانصافیاں بھی انتہائی شدید ہیں، جب سوئی میں گیس دریافت ہوتی ہے تو فوری طور پر پنجاب پہنچ جاتی ہے اور وہاں کھاد کے کارخانے قائم ہوتے ہیں، کیا یہ کھاد کے کارخانے سوئی میں نہیں بن سکتے تھے جس سے وہ علاقہ ترقی کرتا لیکن بلوچستان کی ترقی کسے منظور ہے۔
یہی شکوہ ہمیشہ رہا ہے کہ کم ازکم ان علاقوں کے عوام کو بنیادی سہولیات تو فراہم کی جاتیں افسوس ایسا منصوبہ کبھی نہیں بنایاگیا۔اب موجودہ صوبائی حکومت اور اپوزیشن کو دیکھ کر کچھ امیدبندھی ہے کیوں کہ یہ اس وقت درست سمت میں کام کررہی ہیں ۔ اس وقت ایک مضبوط حکومت کے ساتھ ایک اچھی اپوزیشن بھی واضح نظرآرہی ہے جو بلوچستان کے عوام کی مکمل نمائندگی اور ترجمانی کررہی ہے ۔
گزشتہ روزوزیر اعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے بلوچستان اسمبلی اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ساحل وسائل کی حفاظت ترجیحات میں شامل ہے ۔ہماری کوشش ہے کہ عملی طورپر ثابت کریں کہ ہم بلوچستان کے وسائل کو تحفظ دیں گے۔ ایسا قانون سازی کریں گے جو عملی اور حقیقی معنوں میں تحفظ دے گی اور ساحل و وسائل اپنی جگہ پر برقرار رہیں گے ۔
ہماری تقاریرسے تحفظ ہوتا تو بہت سال قبل ہوچکا ہوتا ،محکمہ معدنیات کو مقامی سطح پر تبدیل کیا جا رہا ہے کرومائیٹ پروسس زون بنائے جا رہے ہیں 350مائنز اونرز کو نوٹسز دیئے ہیں ان کے مائنز معاہدے کی منسوخی ہو سکتی ہے ۔قوانین کے ذریعے ہی زمین ،سائل و ساحل کا تحفظ کر سکتے ہیں ۔
سب سے پہلے ہم بلوچستان کی زمین کا قانون لائیں گے، زمین کی ملکیت حکومت بلوچستان کی ہو گی جو آگے لیز پر دے سکتے ہیں، ہم نے قانون لایا، منظور کروایا یہ کسی اور صوبے نے نہیں کیا۔ 2019کی منرل پالیسی پر کام کر رہے ہیں جو جلد عوام کے سامنے لائیں گے ۔ معدنیات کے حوالے سے بھی حکومت بلوچستان نے کافی کام کیا ہے ۔ ہمارے رولز 2002ء کے ہیں ۔ منرل رولز 2002ء کے بعد بلوچستان میں اپ ڈیٹ بھی نہیں ہوئے ۔
منرل رولز کے تحت سارے ایسے معاہدے اسی کے تحت آگے بڑھتے ہیں ۔ حکومت کے پاس لاء اورپروسیجر ہو تو پھر آپ اپنی زمین کا بھی تحفظ کرسکتے ہیں، ساحل کا بھی وسائل کا بھی، قانون اور ترامیم نہ ہو ایکٹ پر کام بھی نہ ہو اور ہم محسوس کریں کہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو تحفظ دیں گے تو یہ ہماری خواہش ضرور ہوسکتی ہے لیکن عملی طور پر ممکن نہیں ہوگا ۔
سب سے پہلے قانون ہم لائے وہ بلوچستان کی زمین کا قانون ہے کہ بلوچستان کی زمین کے اندر ایسی کمپنی جو بیرون ملک ہو یا باشندہ ہو توبلوچستان کی زمین کی ملکیت اس کے پاس نہیں ہوسکتی، یہ ملکیت بلوچستان حکومت کی ہوگی اور حکومت بلوچستان جس طریقے سے چاہے اسی کے تحت کام ہوگا۔
ہم نے الحمداللہ کابینہ کے مشورے سے لینڈ لیز کے طریق کار سے متعلق کام کیا ،بلوچستان نے اس حوالے سے پہل کی اسی میکانزم کو آگے رکھتے ہوئے اب ہم منرل پالیسی پر کام کررہے ہیں۔2019ء میں ہم ایک جامع منرل پالیسی بلوچستان کو دیں گے ۔ ۔2002ء کی پالیسی کی وجہ سے ریکوڈک ہمارے ہاتھ سے گیا ۔حکومت پاکستان کا ایک معاہدہ ہے آسٹریلیا کے ساتھ جس کی بناء پر ہم ٹریٹیز کے پابند ہوجاتے ہیں کہ کمرشل معاہدے ہیں یا مفاہمتی یاد داشتیں ہیں ہم اس کے پابند ہوجاتے ہیں ۔
ریکوڈک سے متعلق یہ باتیں ہورہی ہیں کہ آپ کینسل نہ کرتے تو معاملات عدالت میں نہ جاتے، میں نے ان کی تصحیح کی کہ معاملات اس وجہ سے عدالت میں گئے کہ آپ نے ہمیں اختیار ہی نہیں دیا ۔صوبائی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو ہرسطح پر سراہاجارہا ہے اور ساتھ ہی اپوزیشن بھی ان اہم نوعیت کے معاملات میں سیاست کی بجائے ایک سمجھدار اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔
بلوچستان کے وسائل اور زمین کی ملکیت صوبے کے ہاتھوں میں ہوگی تو وسائل اور زمین کا غلط استعمال نہیں ہوگا اور اس سے وسائل کی لوٹ مار نہیں ہوگی ۔ بلوچستان کی ترقی کی راہ میں یہ ایک رکاوٹ تھا جسے کسی حد تک حل کیاجارہا ہے جو آنے والے وقت میں یہاں ترقی کے راستے کا تعین کرے گی ۔
امید ہے کہ یہ تسلسل کے ساتھ جاری رہے گا اور بلوچستان کے وسائل اور زمین کا مکمل تحفظ کرتے ہوئے عوامی خواہشات کے مطابق صوبائی حکومت اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔