|

وقتِ اشاعت :   February 5 – 2019

افغانستان دہائیوں سے عالمی طاقتوں کے زیر اثر ہے، روس کے بعد امریکہ ، عالمی طاقتیں اور بھارت نے اپنے پنجے یہاں گاڑ رکھے ہیں جس کی وجہ سے افغانستان میں امن وامان کی صورتحال بہتری کی طرف نہیں جارہی ، مذاکرات اور جنگ دونوں ساتھ ساتھ چلتے آرہے ہیں اور مستقل حل کی تلاش کیلئے سنجیدگی بہت کم دیکھنے کو ملی ہے ۔

اس کی ایک خاص وجہ خطے میں اپنی گرفت کو برقرار رکھنا ہے البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خطے کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے وسائل پر قبضہ بھی اس جنگ کا اہم حصہ ہے اس لئے مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اس وقت افغانستان میں موجود طاقتیں وہاں سے نکلنے کو تیار نہیں اور اسی طرح ایک کمزور حکومت ان کی ضرورت ہے۔ آج بھی افغانستان میں حکمران فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے کہنے پر سب کچھ کیا جاتا ہے۔ 

گزشتہ روز امریکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ افغانستان اور شام میں جاری جنگیں ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے، امریکی فوج کو ان ملکوں سے واپس ضرور لائیں گے لیکن ان ملکوں میں اپنی انٹیلی جنس برقرار رکھیں گے تاہم ایران پر نظر رکھنے کے لیے عراق سے اپنے فوجی اڈے خالی نہیں کریں گے۔ 

افغانستان اور شام سے اپنی افواج کے انخلاء کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہمیں شام میں 4 ماہ رہنا تھا لیکن ہماری افواج وہاں کئی سالوں سے موجود ہیں۔ ہم افغانستان میں 19 سال سے موجود ہیں لیکن اب ہم طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ طالبان امن چاہتے ہیں، وہ تھک گئے ہیں، میرا خیال ہے کہ ہر کوئی تھک چکا ہے، ہمیں ان ناختم ہونے والی جنگوں سے باہر نکل کر اپنے لوگوں کو واپس لانا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ان پر نظر نہیں رکھیں گے، ہم افغانستان میں اپنی انٹیلی جنس برقرار رکھیں گے اور اگر دوبارہ مسائل نے سر اُٹھایا تو ہم ان سے نمٹیں گے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل کے تحفظ اور دوسرے معاملات کی وجہ سے شام سے 2 ہزار کے قریب امریکی فوجی فوراً نہیں لیکن ایک ٹائم فریم کے تحت واپس آئیں گے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ عراق اور شام سے داعش کا 99 فیصد خاتمہ کردیا گیا ہے، اگر کہیں خطرہ ہوا تو ہم واپس آجائیں گے۔

ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ ہم عراق سے اپنے فوجی اڈے خالی نہیں کریں گے بلکہ عراق کے امریکی فوجی اڈوں سے ایران پر نظر رکھیں گے کیونکہ ایران اصل مسئلہ ہے۔واضح رہے کہ حال ہی میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مسلسل 6 روز تک مذاکرات ہوئے تھے، جس کے بعد 27 جنوری کو سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق فریقین نے 18 ماہ کے اندر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء پر اتفاق کیا تھاتاہم کسی بھی فریق کی جانب سے اس کی باقاعدہ تصدیق نہیں کی گئی تھی۔

امریکہ کی جانب سے افغانستان میں اپنے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو برقرار رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی فوج کو وہاں سے فی الوقت نکالنے کیلئے تیار نہیں جس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ اب تک مذاکرات میں کوئی ایسی پیشرفت نہیں ہوئی اور نہ ہی شرائط کے حوالے سے معاملات آگے بڑھے ہیں۔

امریکہ کی افغانستان کے حوالے سے فوج کے انخلاء اور مکمل جنگ بندی کے متعلق پالیسی واضح نہیں جس سے کہاجائے کہ آئندہ چندماہ یا سال کے دوران امریکہ اہم فیصلہ کرے گا مگر راستہ نکالنا بھی ضروری ہے ، امریکہ جنگی نتائج دیکھ چکا ہے اور اب مذاکرات ہی واحد راستہ بچتاہے مگر امریکی پالیسی بھی اس حوالے سے واضح نہیں کہ وہ مستقبل میں کیا کرنے جارہاہے۔