|

وقتِ اشاعت :   February 9 – 2019

افغانستان پر قابض ہونے کی کوششوں نے اسے ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا ہے کہ وہاں شورش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ مذاکرات کے کتنے دور گزرے مگر نتیجہ کچھ نہیں نکلا ۔اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں خود مختار حکومت کبھی نہیں بنی، بلکہ ہمیشہ ایسی حکومت رہی جو عالمی طاقتوں کے زیر اثر رہا، یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ دیرپا امن کیلئے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہے۔

دوسری جانب عالمی طاقتیں افغانستان کو اپنا مسکن بنانے کی خواہش لیکر خطے میں اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں جس طرح سوویت یونین نے کوشش کی اور اس کے بعد امریکہ اور نیٹو نے پنجے گاڑھے۔ بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید امریکہ جلد ہی افغانستان سے فوجی انخلاء کو یقینی بناتے ہوئے افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے بامعنی مذاکرات کی طرف جائے گا مگر جس طرح سے امریکہ کا مؤقف سامنے آرہا ہے ۔

اس میں تضادات موجود ہیں، فی الوقت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکی فوج کی انخلاء فوری عمل میں آئے گی اور وہ افغانستان سے چلی جائے گی چونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے مؤقف اختیار کیا کہ بے مقصد جنگ میں ہم نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے اس لئے افغانستان اور شام سے فوجی انخلاء چاہتے ہیں۔

پھر ان کا دوسرا بیان سامنے آیا کہ حالات کے پپش نظر فوجی انخلاء اور اپنی انٹیلی جنس نیٹ ورک افغانستان میں رکھیں گے تاکہ بروقت حالات سے نمٹ سکیں۔ امریکہ کی افغانستان میں آمد کا جواز امن قائم کرنے کیلئے تھا لیکن حالات مزید بگڑ تے گئے اور ایک ایسی جنگ چھڑ گئی کہ جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اس کا زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا جبکہ امریکہ نے کبھی نیک نیتی سے اس بات کو تسلیم نہیں کیا ۔

دہشت گردی، اسلحہ کلچر، مہاجرین کی یلغار یہ سب افغان جنگ کے وہ بھیانک تحفے ہیں جو پاکستان کے حصہ میں آئے۔ گزشتہ روزپاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان مسئلے کے حل کے لیے سیاسی بندوبست کی ضرورت ہے لیکن امریکی افواج کا اچانک انخلا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔شاہ محمد قریشی کا کہنا تھا کہ بغیر کسی موزوں انڈرسٹینڈنگ اور انتظام کے اچانک انخلاء خطرناک ہو سکتا ہے۔ 

افغانستان میں کوئی بھی افراتفری، بدنظمی اور خانہ جنگی نہیں چاہتا ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے ابھی تک 2.7 ملین افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی ہوئی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ مہاجرین باعزت طریقے سے اپنے ملک واپس چلے جائیں کیونکہ ہم ایک اور کانفلکٹ نہیں چاہتے، چنانچہ اس لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کہ اگر امریکی افواج افغانستان سے اپنا انخلاء شروع کر دیتی ہیں تو کیا افغان سکیورٹی فورسز ملک میں سکیورٹی فراہم کر سکتی ہیں ،کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ امریکی افواج کے افغانستان کے انخلا ء کے اوقات کار پر منحصر ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آنے کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میرے خیال سے امریکہ اور پاکستان ایک صفحے پر ہیں، میں جب واشنگٹن گیا تو میری امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ پومپیو سے بہت مثبت ملاقات رہی اور جب وہ اسلام آباد کے دورے پر آئے تو اس وقت بھی ہماری ملاقات تعمیری رہی۔ 

میرے خیال میں امریکہ اور پاکستان اچھی سمت میں بڑھ رہے ہیں اور امریکہ کو پاکستان کی موجودہ حکومت پر زیادہ اعتماد ہے۔جس طرح وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان پر مؤقف دیا ہے یہ تسلسل کے ساتھ پاکستان کا بیانیہ رہا ہے کہ وہ ایک ثالث کے طور پر اپنا کردار ادا کرے گا ۔ انہوں نے مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے ایک اچھا نکتہ اٹھایا ہے اور یقینی طور پر مہاجرین کی باعزت واپسی سے بلوچستان کے حالات میں بہت بہتری آئے گی لہذا اسے ہر صورت عملی جامہ پہنایا جائے۔