اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت عوامی مفاد کے کیسوں میں حاصل سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیارات کے استعمال کی حدود وقیود طے کرنا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے ابھی تک کسی بھی معاملے میں سوموٹو کا اختیاراستعمال نہیں کیا۔ موجودہ چیف جسٹس کی مدت عہدہ دسمبر تک ہے اور سینئر وکلا کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم پربرادر ججز کے مابین اتفاق رائے پیدا کرنا ان کیلیے بڑا چیلنج ہوسکتا ہے۔
لائرزموومنٹ کے بعد کے گیارہ برسوں میں جوڈیشل ایکٹوازم اور جوڈیشل اختیارات کے محدود استعمال( judicial restraint) کے معاملے میں سینئرججز کا نکتہ نظر مختلف رہا ہے۔2009ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں اعلیٰ عدلیہ نے عوامی مفادات کے مقدمات میں بنیادی حقوق کے نام پر آرٹیکل 184 (3) کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال شروع کیا۔
بعد ازاں حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جوڈیشل ایکٹوازم کا پورا استعمال کیا لیکن ان کے پیشرو چیف جسٹسز تصدق حسین جیلانی، ناصر الملک اورانور ظہیر جمالی نے اپنے ادوار میں ان اختیارات کو زیادہ استعمال نہیں کیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ ججوں میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید سابق چیف جسٹس افتخار محمد ثّحڈڑے کے اس بینچ کا حصہ رہ چکے ہیں جو عوامی مفادات کے مقدمات کی سماعت کرتا تھا۔جسٹس گلزار احمد جو موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد 2سال تک اس عہدہ پر رہیں گے نے ابھی سے کراچی میں تجاوزات کے خلاف عوامی مفاد کے مقدمات کی سماعت شروع کررکھی ہے۔
اسی طرح جسٹس عظمت سعید شیخ بھی گزشتہ سال آرٹیکل 62(1) F کے تحت ارکان اسمبلی وسینٹ کی تعلیمی قابلیت کے حوالے سے 2رولنگز دے چکے ہیں ۔انھوں نے پاناما پیپرز کے معاملے میں جے آئی ٹی کی تشکیل کی بھی توثیق کی تھی۔ سابقہ فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آنے والے چیف جسٹس عوامی مفادات کے کیسوں کی سماعت کے معاملے میں موجودہ چیف جسٹس سے مختلف نکتہ نظر رکھتے ہیں۔
آنے والے دنوں میں چیف جسٹس بننے والے جسٹس عمرعطا بندیال بھی جو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے سوموٹو کیسوں کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ رہ چکے ہیں ارکان اسمبلی کی اہلیت سے متعلق مقدمات کی سماعت کرتے رہے ہیں۔آرٹیکل 62(1)F کے تحت کسی رکن اسمبلی کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ انہی نے لکھا تھا۔ اثاثے چھپانے کے کیس میں رائے حسن نواز کی نااہلی کا فیصلہ بھی انہی کا لکھا ہوا ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ ان چند ججوں میں شامل ہیں جنھوں نے عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے21 ویں آئینی ترمیم کی منسوخی کی حمایت کی تھی۔
جسٹس اعجازالحسن جو جسٹس فائز عیسیٰ کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان بننے والے ہیں جسٹس ثاقب نثار کے اس بینچ کا حصہ رہے ہیں جو ایسے کیسوں کی سماعت کرتا رہا ہے ۔انہوں نے جعلی اکاؤنٹس،سکولوں کی فیسوں میں کمی سمیت بعض ایسے کیسوں کے فیصلے بھی لکھے ہیں۔چیف جسٹس سابق نثار نے انہیں پاناما پیپرز کے کیس میں مانیٹرنگ جج بھی مقرر کیا تھا۔
جسٹس یحیٰ آفریدی جو سپریم کورٹ کے جونیئرترین جج ہیں اور 2028ء میں پاکستان کے چیف جسٹس بننے والے ہیں نے گزشتہ سال عوامی مفادات کے چندمقدمات کی سماعت سے انکار کردیا تھا۔ان حالات میں چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کیلئے سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیارات میں ترمیم آسان نہیں ہوگی۔یہ ترمیم صرف فل کورٹ میں ہی منظور ہوسکتی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جسٹس کھوسہ نے اصغرخاں کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کا معاملہ خود سننے کے بجائے اسے تین رکنی بینچ کو بھیج دیا ہے جس کی سربراہی جسٹس گلزار احمد کررہے ہیں اور اس بینچ میں جٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجازالحسن شامل ہیں۔ان میں دو جج اس بینچ کا حصہ رہ چکے ہیں جس کی سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سربراہی کی تھی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ تر سوموٹو کیس جسٹس گلزار اور جسٹس عظمت سعید کی سربراہی والے بینچوں کے پاس لگائے جارہے ہیں۔