|

وقتِ اشاعت :   February 12 – 2019

انسان کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ رہنے کے لیے مکان کی، بولنے کے لیے زبان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور چلنے کے لیے پاؤں کی۔ غرض ایک معیاری زندگی گزارنے کے لیے انسان کو بنیادی سہولیات سے آراستہ ہونے، فاصلوں کو کم کرنے کے لیے سواری،رابطے کے لیے موبا ئل فون اور انٹرنیٹ وغیرہ وغیرہ کی ضرورت پڑتی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی میں جدتیں آگئیں سہولتیں آگئیں۔ سہولتوں نے انسانی زندگی میں بے شمار تبدیلیاں لائیں، لائف اسٹائل تبدیل ہوگیا۔ ذریعہ معاش کے حصول کا طریقہ کار تبدیل ہوگیا۔ رابطوں کے ذرائع تبدیل ہو گئے۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب آواران جانا ہوا تو نہ جانے ایسا کیوں محسوس ہوا کہ سہولتیں آواران کی دسترس میں آنے کے بجائے اس سے باہر نکلتی جا رہی ہیں۔

وہ نمائندگان جن کے وعدے وعیدوں نے امیدوں کا بلند و بالا محل تعمیر تو کیے مگر پسماندگی کا برملا اظہار اسمبلی کے ایوانوں میں کبھی بھی سنائی نہیں دیا۔ آواران کا روح زخمی ہے، جگر چھلنی چھلنی ہے مگر اُس درد اور تکلیف کو بیان کرنے کے لیے قدوس بزنجو کو الفاظ دستیاب نہیں اور نہ ہی درد کو دور کرنے کے لیے کوئی دوا ۔ششک کے خلاف آواز بلند کرنے اورمارے جانے والے عبدالکریم اور آدم جان کے وارثین اب اسمبلی کے اندر کسانوں کے حق میں آواز بلند کرتے نظر نہیں آتے ۔

بارہ سالہ کیریر کے دوران وہ نہ صرف وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کا حقدار ٹھہرائے گئے بلکہ ثناء اللہ زہری جیسے قد آور نواب کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ عمران خان اور آصف زرداری جیسی اہم شخصیات کو اپنی سیاسی وکٹیں حوالے کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔تاہم اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل مچانے والے قدوس بزنجو آواران کی تعمیر و ترقی میں اب تک اہم قدم اٹھانے سے قاصر رہے ہیں ۔ جب بھی پسماندگی کا ذکر آتا ہے تو آواران تمام اضلاع کو مات دیتا ہوا آگے چلا جاتا ہے۔

آواران ٹو بیلہ شاہراہ پہلی اور آخری بار مشرف دور میں بلیک ٹاپ کیا گیا۔ بیلہ ٹو آواران کی ون لائن سڑک کی تعمیر کا کام جب مکمل ہوا تو کوسٹل ہائی وے اپنی جادو دکھانے کے لیے بے تاب دکھائی دے رہا تھا۔ آواران کی وہ سڑکیں جن پر چوبیس گھنٹے ٹریفک کی روانی رہتی تھی ،سنسان پڑ گئے۔ آواران کے معاشی نظام پرایسا کاری وار تھا کہ وہ ڈھے گیا پھر اٹھ نہ سکا ۔

آواران سے تربت اور پنجگور کا ناطہ کٹ گیا اور سفری سلسلہ کراچی اور بیلہ تک محدود ہو کر رہ گیا۔ مشرف دور میںآواران کی جن سڑکوں کو کالا لباس پہنایا گیا تھا، اب وہ لباس جگہ جگہ سے پھٹ کر پرانے ہو چکے ہیں۔ اب تو پھٹے پرانے لباس کو کوئی بھی ہوا آکر اڑا سکتا ہے۔آواران کی سڑک پر جب بھی بھاری بھر کم گاڑیاں چلتی ہیں سڑکیں چیخ اٹھتی ہیں رحم کی اپیلیں بنام قدوس بزنجو آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ 

آواران کئی اضلاع کو ملانے کے لیے ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ یہیں سے وہ بیلہ، کیچ، گوادر، پنجگور، خضدار کو ملاتا ہے۔ آواران سے پنجگور کا فاصلہ 150کلومیٹر ہے جسے ملانے کے لیے دراسکی کا گزرگاہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ آواران کو خضدار سے ملانے کے لیے سڑک مشکے سے نکلتی ہے۔ جب کہ کیچ سے ملانے والی سڑک کی لمبائی 270کلومیٹر تک کا ہے ہوشاب تک پکی سڑک ہونے کی وجہ سے اس کا آدھا حصہ ہی رہ جاتا ہے۔

شاہراہوں کی تعمیر سے آواران کا زمینی فاصلہ مذکورہ اضلاع سے گھٹ کر کم ہوجائے گا جس کا براہِ راست مثبت اثر یہاں کی معیشت پر پڑ سکتا ہے، کاروبار کے نئے ذرائع پیدا ہوں گے۔ سفری دورانیہ گھٹ جائے گا۔ آواران کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی زرعی نظام میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ فصلات کی رسائی مارکیٹ تک با آسانی ہو سکے گی۔

آواران میں بجلی کا باقاعدہ نظام موجود نہیں۔ لوگ بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سولر لائیٹس کو استعمال لاتے ہیں۔ گیس کا تو کوئی تصور موجود نہیں۔ گیس کے لیے یہاں کی آبادی لکڑیوں پہ انحصار کرتی ہے۔ ٹیلیفونک نظام کے لیے موبائل سروس تو موجود ہے مگر انٹرنیٹ کا نظام یہاں کی آبادی سے چھین لیا گیا ہے۔ نومبر 2016کو سابق وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان کی زیر صدارت ہونے والی اجلاس میں لسبیلہ آواران کو تھری جی سروس کی فراہمی کا اعلان کیا گیا جس پر کام شروع کیا گیا۔ آواران کے دیہی علاقوں میں سروس کی فراہمی کے لیے موبائل ٹاورز لگائے گئے۔موبائل انٹرنیٹ سروس شروع تو کی گئی۔ مگر چند ہفتوں کی بحالی کے بعد انٹرنیٹ سسٹم معطل کیا گیا جو تاحال برقرار ہے۔ 

آواران کی سڑکیں کیوں نہیں بنتیں، بجلی کی فراہمی عمل میں کیوں نہیں لایا جاتا ،زرعی نظام بہتر کیوں نہیں کیا جاتا، انٹرنیٹ سروس بندش کا شکار کیوں ہے۔ اب یہ سوال ایک حقیقی نمائندہ ہی کر سکتا ہے ایوان میں آواز بلند کرسکتا ہے لیکن آوارن کی پسماندگی اور قدوس بزنجو کی خاموشی سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ علاقہ اب تک اپنے حقیقی وارث اور نمائندے کی تلاش میں ہے۔

One Response to “آواران کی سڑکیں قدوس بزنجو کی راہیں تھک رہی تھیں”

Comments are closed.