|

وقتِ اشاعت :   February 13 – 2019

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں گذشتہ پندرہ بیس سال کی انتظامی بدنظمی کے نتائج آج مسائل کا پہاڑ بن کر سامنے آئے ہیں،بلوچستان میں گورنس کے اچھے ڈھانچے کی ضرورت ہے، ترقی کا عمل مالی استحکام سے وابستہ ہے۔

بلوچستان کی سالانہ آمدن پندرہ ارب روپے ہے، موجودہ صوبائی حکومت آئندہ چند سالوں میں بلوچستان کے ریونیو کو چالیس ارب روپے تک لے جانا چاہتی ہے جس کے لئے ٹیکس حاصل کرنے والے اداروں کی کارکردگی اور استعداد کار میں اضافے پر کام کیا جارہا ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے آن لائن ٹیکس کلکشن سسٹم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، صوبائی وزراء اور اراکین صوبائی اسمبلی، بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سعید احمد ہاشمی، صوبائی سیکریٹریز، محکمہ ایکسائز کے افسران اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی تقریب میں موجود تھے۔ 

وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ آج ہم جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم پیشرفت کرتے ہوئے OTCS کا آغاز کرنے جارہے ہیں جس سے نہ صرف مختلف مدات میں ٹیکسوں کی وصولی کے نظام کو بہتر بناکر صوبے کے محاصل میں اضافہ ممکن ہوگا بلکہ عوام کو ٹیکسوں کی ادائیگی میں سہولت بھی مل سکے گی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت کی مالی پوزیشن جتنی اچھی ہوگی مجموعی ترقی اتنی ہی بہتر ہوگی، ہم ایسا نظام لانا چاہتے ہیں جو آئندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہو، وزیراعلیٰ نے کہا کہ آج کے دور میں کسی بھی معاشرے، حکومت، ادارے یا فرد کی کارکردگی اور استعداد کار کا اندازہ اس کے مالی استحکام سے لگایا جاسکتا ہے، جس بھی معاشرے، حکومت، ادارے اور فرد کی مالی پوزیشن بہتر ہوگی تو وہ یقیناًاس کی کارکردگی کی بہتری کا مظہر ہوگا، لیکن اگر مالی صورتحال اچھی نہیں تو پھر پریشانی کی بات ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھی صوبائی حکومت کی مالی پوزیشن کی وجہ سے پریشان ضرور ہیں یہ سلسلہ عرصہ دراز سے چلتا چلتا یہاں تک پہنچا ہے، ہمیں سٹرکچر ریفارمزقوانین میں ترامیم اور سروس رولز میں بہتری لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اداروں کا نظام تباہی کی جانب جارہا ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارا پنشن بل اس وقت 23 ارب روپے کا ہے جو 2025میں دو سو ارب روپے تک جاپہنچے گا، بنیادی ڈھانچہ تباہ ہے، اگر یہ صورتحال بہتر نہیں ہوتی تو پھر پریشانی میں مزید اضافہ ہوگا، ہماری کل پی ایس ڈی کا سائز ساٹھ ارب روپے کا ہے، ہمیں پنشن بل کی مد میں دو سو ارب روپے وفاق نہیں دے گا بلکہ ہم نے اپنے وسائل سے اسے پورا کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیسے کہاں سے آئیں گے اور اگر نہیں آئیں گے تو کیا صورتحال پیدا ہوگی، سیاسی لوگوں کے ساتھ ساتھ افسران کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کریں، ہمیں سیاست کو بھی چلانا ہے اور گورننس کو بھی بہتر کرنا ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ گورننس کا اسٹرکچر ایسا ہو کہ جو محکموں کی کمزوریوں کو دیکھے اور انہیں دور کرنے کے لئے اقدامات کرے، انہوں نے کہا کہ ہمارا پورا صوبہ پندرہ ارب روپے کماتا ہے، 2025تک صوبے کا ترقیاتی اور غیرترقیاتی بجٹ اورپنشن بل ساڑھے پانچ سو ارب روپے تک ہوگا، جبکہ وفاقی حکومت سے ہمیں ڈھائی سو ارب روپے ملیں گے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارے پاس آمدنی میں اضافہ کے مختلف ذرائع موجود ہیں جن کو استعمال میں لاکر ہم اپنی آمدنی کو بڑھاتے ہوئے دستیاب فنڈز اور درکار فنڈز میں موجود گیپ کو پورا کرسکتے ہیں اور اپنے محصولات میں اضافہ کرکے خودانحصاری کا حصول ممکن بناسکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ترقی کے اہداف کے حصول اور عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی تبھی ممکن ہے جب وسائل کے حوالے سے بلوچستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا، بدقسمتی سے ماضی میں صوبے کے وسائل میں اضافے کی جانب توجہ نہیں دی گئی اور وفاق سے حاصل ہونے والے فنڈز پر انحصار کیا گیا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم قیمتی معدنی وسائل، منفرد جغرافیائی محل وقوع، طویل ساحلی پٹی اور وسیع وعریض رقبہ رکھنے کے باوجود ابھی تک پسماندہ ہیں، اگر ان وسائل سے استفادہ کیا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج بلوچستان ایک ترقیاتی صوبہ نہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ اداروں میں بہتری کی بہت گنجائش موجود ہے، ہم نے صوبے کے محاصل میں اضافے کے لئے موثر قانون سازی کی ہے اور کئی ایک اقدامات تجویز کئے گئے ہیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی کابینہ کے آٹھ اجلاسوں میں صوبے کی مجموعی ترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے لئے بہت سے فیصلے کئے گئے ہیں جن کے نتائج جلد سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مشیر محکمہ ایکسائز ،ملک نعیم بازئی نے کہا کہ محکمہ ایکسائز نے رواں مالی سال میں دو ارب آٹھ کروڑ اسی لاکھ روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا ہے، محکمے کو درپیش مسائل حل کرکے ریونیو کی شرح میں اضافہ ممکن ہے، قبل ازیں OTCSکے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ محکمہ ایکسائز بلوچستان صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے لئے چھ قسم کے ٹیکس وصول کرتا ہے۔

آن لائن ٹیکس کلیکشن سسٹم کے تحت گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لئے نادرا سے لنک قائم کردیا گیا ہے اور سات سیکیورٹی فیچرز پر مبنی سمارٹ کارڈ متعارف کرایا گیا ہے جو رجسٹریشن بک کی جگہ لے گا، بلوچستان پہلا صوبہ ہوگا جہاں ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے آن لائن ٹیکش جمع کرانے کی سہولت میسر ہوگی۔

، پاکستان کی کسی بھی جگہ سے گاڑیوں کی ویریفکیشن کی جاسکے گی جس کے لئے بلوچستان میں رجسٹرڈ گاڑیوں کا تمام ڈیٹا مرکزی ڈیٹا سینٹر میں فیڈ کردیا گیا ہے، گاڑیوں کی خریدوفروخت کے عمل میں فریقین کے شناختی عمل کی تصدیق کے لئے نادرا اور محکمہ ایکسائیز کے مابین ایم او یو پر دستخط کئے گئے ہیں۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ نے منصوبے کی تختی کی نقاب کشائی کی اور کمپیوٹر پر بٹن دبا کر او ٹی سی ایس کا آغاز کیا، وزیراعلیٰ نے اس موقع پر سرکاری گاڑیوں کی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹس بھی سرکاری اداروں میں تقسیم کیں۔

ضے سمیت مہلک امراض میں مبتلا افراد کو طبی ومالی معاونت فراہم کرنے کیلئے بلوچستان عوامی انڈوومنٹ فنڈ قائم مستحق افراد کا علاج ملک کے دیگر مستند سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں کرایا جائیگا درخواست گزاروں کیلئے فارم کا اجراء کردیا گیا ۔

محکمہ سماجی بہبود و حکومت بلوچستان کے زیر اہتمام قائم بلوچستان عوامی انڈوومنٹ فنڈ وزیراعلیٰ کے مختص کردہ صوبائی و ترقیاتی پروگرام کے سوشل سیکٹر کا حصہ ہے جس کی گزشتہ برس10 دسمبر کو کابینہ اجلاس میں منظوری دی گئی تھی پروگرام کے تحت کینسر ، حادثاتی طور پر جھلس جانے والے ، جگر کی پیوندکاری ، تھیلیسیماکے مرض میں مبتلامریضوں سمیت گردوں کے آخری اسٹیج کے مریضوں اور ڈائلیسز کے سہولیات کی فراہمی کیلئے طبی ومالی معاونت فراہم کی جائیگی ۔

درخواست گزار پروگرام کے تحت کراچی کے آغا خان لیاقت نیشنل ، نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈڈیزیز ، ضیا الدین ہسپتال ، کرن ہسپتال ، ساؤٹھ سٹی، پٹیل ہسپتال، طباہارٹ انسٹی ٹیوٹ، ، الشفاء ٹرسٹ اور اے ایف آئی سی راولپنڈی، شفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد، لاہور کے شوکت خانم اور انسٹی ٹیوٹ آف نیو کلیئر میڈسن اونکالوجی کے سمیت کوئٹہ کے بی ایم سی ، سول ہسپتال، سی ایم ایچ، انسٹی ٹیوٹ آف ریڈیو تھراپی کوئٹہ میں اپنا علاج کراپائیں گے ۔

درخواست دینے کا طریقہ کار میں مستحق مریض پینل پر موجود ہسپتالوں مستند ڈاکٹر اور ہسپتال سے ریفرل کی دستاویزات مرض کی تشخیص میں کئے گئے ٹیسٹ اور مفصل رپورٹس کے ہمراہ تخمینہ اخراجات کی رسید متعلقہ محکمے سے حاصل کر سکتے ہیں ۔ 

سیکرٹری محکمہ سماجی بہبود نورالحق بلوچ کے مطابق صوبے کی منتشر آبادی کیلئے روزگارکے ذرائع محدود ہیں جس کی وجہ سے مستحق لوگ اپنا علاج نہیں کراپاتے ان کے مطابق وزیراعلیٰ کی ہدایت پر مہلک بیماریوں میں مبتلا افراد کا علاج پاکستان کے 17 بڑے ہسپتالوں میں کرایا جائیگا ۔