بلوچستان میں خشک سالی کا آغاز 90 کی دھائی کے بعد شروع ہوا جس کی وجہ سے بیشتر اضلاع میں مال ومویشی مرنے لگے اور بڑی تعداد میں لوگوں نے متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی کی۔اس سے زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہوکر رہ گیا۔
گزشتہ حکومتوں نے اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے کوئی پالیسی مرتب نہیں کی جس سے خشک سالی کا مقابلہ کیاجاسکے ۔بلوچستان میں مطلوبہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی نے سراٹھایا مگر بارشیں ہونے کے باوجود ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے پانی کو ذخیرہ نہیں کیاجاسکا ۔اب بھی بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں بارشیں ہورہی ہیں مگر بدقسمتی سے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ماضی میں کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنایا گیا۔
بلوچستان میں قحط کی وجہ سے خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہوگئے ہیں بعض علاقوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو بروقت ریلیف بھی نہیں مل رہا، اس لئے ضروری ہے کہ تمام اضلاع کی انتظامیہ سے مکمل رپورٹ طلب کی جائے اور صورتحال کا جائزہ لیاجائے۔ گزشتہ روزوزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے خشک سالی کی صورتحال سے متعلق اقوام متحدہ کے مشترکہ مشن کی ہونے والی ملاقات کے دوران مشن کی جانب سے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں عوام کی معاشی اور سماجی زندگی پر خشک سالی کے باعث مرتب ہونے والے اثرات کو کم کرنے اور متاثرہ افراد کی امداد وبحالی کے لئے بھرپور معاونت کی پیشکش کی گئی ۔
مشن کی قیادت اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے او سی ایچ اے کے پاکستان میں سربراہ مسٹر مارکوس ورنے Mr.Markus werna کررہے تھے جبکہ مشن میں ڈبلیو ایف پی، یونیسف، ڈبلیوایچ او، یو این ایف پی اے، یو این ڈی پی اور ایف اے او کے نمائندے بھی شامل تھے۔
اقوام متحدہ کے مشن کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں اور خواتین اور بچوں کے لئے غذائیت کی فراہمی کے پروگرام میں بھی بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی، ملاقات میں متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لئے مختصر مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی منصوبے شروع کرنے سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور ڈونر ایجنسیوں کی معاونت ان منصوبوں کی تکمیل میں کارآمد ثابت ہوگی اور ان منصوبوں سے متاثرہ اضلاع میں صورتحال بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
صوبائی حکومت اور مشن کی جانب سے اس ضمن میں مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا، صوبائی حکومت کی جانب سے متاثرہ اضلاع میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کو آپریشنل سرگرمیوں کے لئے محفوظ رسائی دینے اور اس حوالے سے انہیں ون ونڈو آپریشن کی سہولت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ متعلقہ اداروں سے مربوط روابط کے لئے صوبائی حکومت فوکل پرسن مقرر کرے گی۔
اقوام متحد ہ کے مشن کی جانب سے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں امدادوبحالی کی سرگرمیوں، خواتین اور بچوں کے لئے غذائی ایمرجنسی کے نفاذ اور ٹاسک فورس کے قیام کے حوالے سے صوبائی حکومت کے اقدامات اور کوششوں کو سراہا گیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دھائی سے زائد عرصہ سے بارشوں کی کمی کے باعث صوبے میں خشک سالی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے جس سے لائیو اسٹاک اور زراعت کے شعبے متاثر ہوئے ہیں اور ان سے منسلک بہت بڑی آبادی کو معاشی مسائل کا سامنا ہے۔
خشک سالی کے باعث زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گررہی ہے تاہم حکومت ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے پانی کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے اور موسمی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے لئے بھی لائحہ عمل مرتب کیا جارہا ہے جس میں انوائرمنٹل کونسل کی فعالی اور جنگلات کے ایکٹ میں ترامیم شامل ہیں۔
بلوچستان میں خشک سالی سے نمٹنے کیلئے پہلے بھی تجویز دی گئی تھی کہ اس صورتحال میں عالمی ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کیاجائے تاکہ عالمی ادارے آفت زدہ علاقوں میں اپنی ٹیمیں بھیج کر آپریشن شروع کریں جس سے انسانی بحران سے فوری طور پر نمٹاجاسکے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ عالمی ادارے بلوچستان کے قحط زدہ علاقوں کا سروے کرینگے اور وہاں ریلیف کے کام کا آغاز کرینگے جس سے متاثرہ علاقوں کی صورتحال میں بہتری آئے گی ۔
اس کے علاوہ حکومت بلوچستان میں خشک سالی سے نمٹنے کیلئے ڈیمز کی تعمیر کیلئے بھی منصوبہ بندی کرے تاکہ بلوچستان میں آئندہ قحط اور خشک سالی سے بچاجاسکے اور ہماری زراعت جو تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، اس میں بہتری آسکے کیونکہ بلوچستان کے بیشتر عوام کا ذرائع معاش زراعت سے وابستہ ہے جس کیلئے مستقل پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔
بلوچستان میں خشک سالی، مستقل پالیسی کی ضرورت
وقتِ اشاعت : February 15 – 2019