|

وقتِ اشاعت :   February 21 – 2019

بھارت کے ساتھ جب بھی پاکستان نے مذاکرات کرنے اورخطے میں امن کیلئے بات کی، جواب نفی میں ملا، بھارت کبھی بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتاجب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے بغیر کسی ثبوت، تحقیق اور دلیل کے پاکستان پر الزام تراشی شروع کردیتا ہے، اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب پلوامہ میں حملہ ہوا تو چند گھنٹے ہی نہیں گزرے تھے کہ بھارتی میڈیا نے واویلا مچانا شروع کردیا اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانے میں ذرا بھی دیر نہیں کی ۔

حالانکہ ذرائع ابلاغ ایک ذمہ دار ادارہ ہے جس میں جب تک مکمل شواہد اور سرکاری سطح پر مکمل تحقیقات نہیں ہوتیں،اس سے قبل کچھ کہنا اور اشتعال انگیزی پھیلانا ذرائع ابلاغ کے اصولوں کے برعکس ہے۔

بالکل اسی طرح کا غیرذمہ دارانہ رویہ بھارتی میڈیا نے اپنایا ،لگاتار بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف زہر اگلتا رہا جبکہ کوئی شواہد اور انٹیلی جنس بنیاد پر کوئی بھی معلومات ان کے پاس نہیں تھیں،جس کے بعد بھارتی سرکار نے فوراََ کابینہ اجلاس طلب کیا 20 منٹ تک چلنے والی اجلاس میں فوری طورپر پاکستان کو پلوامہ واقعہ کا ذمہ دار ٹہرایا گیا جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارتی میڈیا کے دباؤ میں آکر مودی سرکار نے تمام ترالزامات پاکستان پر ڈال دیئے جبکہ جائے وقوعہ سے مکمل معلومات تک ان کے پاس نہیں تھیں۔ پلوامہ حملہ کے بعد بھارتی اقدام پر انہی کے ملک سے شک وشہبات اٹھائے جارہے ہیں کہ اتنا بارود کس طرح وہاں پہنچا۔ 

اور یہ بات واضح ہے کہ بھارتی فوج مقبوضہ جموں کشمیر پر قابض ہے اور آئے روز نہتے مظلوم کشمیریوں کو شہید کررہی ہے، خواتین بچے، بزرگوں کو گھروں سے نکال کر تشدد کانشانہ بنارہی ہے اور نوجوانوں کو شہید کیاجارہا ہے ، آج بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے جبکہ مودی سرکار انتہاء پسندوں کی پشت پناہی بھی کررہی ہے۔ 

آمدہ اطلاعات کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کیاجارہا ہے جبکہ پاکستانی باشندے جو اس وقت بھارت میں زیر علاج ہیں ان کی فوری واپسی اور ویزہ منسوخی عمل میں لائی گئی ہے جوکسی بھی جمہوری اور سیکولر ریاست میں اس طرح کا جارحانہ عمل دیکھنے کو نہیں ملتا ،اس عمل سے بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت برائے راست ملوث رہا ہے مگر پاکستان کی جانب سے ہمیشہ کشمیر سمیت دیگر معاملات کے حوالے سے بات چیت پر زور دیا گیا ہے شاید بھارت اسے پاکستان کی کمزور سمجھتا ہے مگر گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر جواب دیا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کے حوالے سے سوچے گا نہیں بلکہ جواب دے گا ،ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی اور کہاکہ بھارت کے پاس پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد ہیں تو ہمیں فراہم کرے، ہم کارروائی کریں گے۔ 

نئے پاکستان میں نئی سوچ ہے، یہ بات ہمارے اپنے مفاد میں ہے کہ نہ تو ہماری سرزمین سے باہر جا کر کوئی دہشت گردی کرے اور نہ ہی پاکستان آ کر کوئی دہشت گردی کرے، افغانستان کی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی بات چیت سے ہی حل ہوگا۔ بھارت سوچے کہ کشمیری نوجوانوں میں موت کا خوف کیوں ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اسی وقت اس پر ردعمل دینا چاہتا تھا کیونکہ پاکستان پر الزام لگایا گیا تھا لیکن سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ ابھی جواب نہ دیا جائے تاکہ سعودی ولی عہد کے دورہ سے توجہ نہ ہٹے۔ 

انہوں نے کہا کہ جب ولی عہد واپس گئے تو میں بھارتی حکومت کو جواب دینا چاہتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان پر بغیر شواہد کے الزام لگا دیا گیا۔ پاکستان کو اس طرح کے واقعہ میں ملوث ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، سعودی ولی عہد کے دورہ کے موقع پر کوئی احمق ہی دورہ کو سبوتاژ کرنے کے لئے اس طرح کا واقعہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایسے مرحلے میں ہے جب وہ استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے، ہم نے 15 سال دہشت گردی کے خلاف جنگ کی جس میں 70 ہزار پاکستانی شہید ہوئے ہیں اور معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا، اب امن اور استحکام آ رہا ہے ایسے میں ہمیں اس طرح کے واقعہ سے کیا فائدہ ہوگا۔ 

بھارتی جارحیت کی دھمکیوں اور زہراگلنے کے باوجودپاکستان کی جانب سے ایک بار پھر تحقیقات کی پیشکش اس بات کو واضح کرتا ہے کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے قرارداد وں کے مطابق حل ہوتا دیکھنا چاہتا ہے جو کشمیریوں کا حق ہے ۔ البتہ بھارت اپنی پرانی روش برقرار رکھتے ہوئے جنگی ماحول چاہتا ہے جو اس کی ریاستی پالیسی کوواضح کرتی ہے۔

دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان کسی بھی طرح خطے میں کشیدگی نہیں چاہتا بلکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کا خواہاں ہے جس کا ثبوت موجودہ حکومت نے کرتاپورکوریڈورکھول کر دیا ۔ پاکستان دفاعی صلاحیت نہیں بلکہ منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے مگر پاکستان امن چاہتا ہے تاکہ خطے کے تمام ممالک ترقی یافتہ دور میں داخل ہوسکیں جو صرف امن سے ممکن ہے ۔