|

وقتِ اشاعت :   February 23 – 2019

بلوچستان گزشتہ کئی برسوں سے قحط سالی کی لپیٹ میں ہے ، مطلوبہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے بعض اضلاع کو قحط سالی کا سامنا ہے ، صوبہ میں حالیہ بارشوں سے کسی حد تک خشک سالی سے نمٹا جاسکتا تھا مگر بدقسمتی سے ماضی کی حکومتوں نے پانی ذخیرہ کرنے کیلئے کوئی خاص منصوبہ نہیں بنایا جس کی وجہ سے حالیہ بارشوں نے تباہی زیادہ مچائی۔ 

خضدار میں 41 ملی میٹر اور لسبیلہ میں 28 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی،سبی میں21،بارکھان 20اورتربت اور کوئٹہ میں 18 ،قلات15، گوادر،اورماڑہ 13،ژوب12 اورزیارت میں 11 ملی میٹربارش ہوئی۔ دالبندین 4، پسنی 3، نوکنڈی 2اورپنجگور میں ایک ملی میٹر بارش ہوئی۔زیارت،کان مہترزئی،توبہ اچکزئی،توبہ کاکڑی،چھپر لفٹ اور ہربوئی میں برفباری ہوئی۔زیارت میں چار انچ برفباری ریکارڈ کی گئی۔

موسلا دھار بارشوں اور اس کے بعد آنے والے سیلابی ریلوں کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیانی سے بڑے پیمانے پر نشیبی علاقے زیرآب آگئے جبکہ بعض علاقوں میں سیلابی پانی گھروں میں داخل ہوگیا جس کی وجہ سے لوگوں نے فوری نقل مکانی کر کے اپنی جان بچائی۔بعض لوگوں نے مکانات کی چھتوں اور درختوں پر چڑھ کر اپنی جانیں بچائیں ۔بارشوں سے سب سے زیادہ نقصان ضلع لسبیلہ میں ہوا جہاں 2005ء کے بعد پہلی بار اس شدت کا سیلاب آیا ہے جس سے بیس کے قریب دیہات اور پانچ ہزارافراد متاثر ہوئے ۔ 

سیلابی ریلہ اتنا شدید تھا آر سی ڈی شاہرہ کی بڑی ندیوں کھانٹرا ندی اور لنڈا ڈھورا کے پلوں کے اوپر سے پانی گزر رہا تھا جس کی وجہ سے آر سی ڈی شاہراہ ٹریفک کیلئے معطل ہو گئی ۔سینکڑوں مال مویشی سیلابی پانی میں بہہ گئے،سینکڑوں ایکڑ پرکھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، کچے مکانات منہدم ہو گئے ۔لسبیلہ میں 60 سے 70 ملی میٹر موسلا دھار بارش ہوئی جو سیلابی صورتحال کی کیفیت پیدا ہونے کا سبب بنی۔ لسبیلہ کے ضلعی ہیڈ کوارٹر اوتھل اور بیلہ میں 250سے زائد افراد سیلابی ریلوں میں پھنسے جنہیں لیویز، پولیس، ایف سی، کوسٹ گارڈ ، ایدھی سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی مدد سے ریسکیو کیا گیا ،اوتھل کے قریب کانٹا ندی میں سیلابی ریلے میں چار افراد پانی میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔

ریسکیو آپریشن میں کوسٹ گارڈ بھی کشتیوں کے ہمراہ شریک تھے جبکہ پاک فوج کے ہیلی کاپٹروں سے علاقے کا فضائی جائزہ لیاگیا۔ بیلہ اور اوتھل کے بیس کے قریب دیہات اور محلے سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے ۔ ایک اندازے کے مطابق زمینداروں کو پہنچنے والا نقصان کروڑوں روپے کا ہے۔ ان کے ٹیوب ویل، شمسی توانائی اور دیگر مشینری بھی تباہ ہوگئی ہے۔

آواران میں مالار ڈیم ٹوٹنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پرعلاقے زیرآب آگئے جس سے مال مویشی اور فصلوں کو نقصان پہنچا ۔ لسبیلہ اور خضدار کے پہاڑی علاقوں میں حالیہ بارشوں سے حب ڈیم میں پانی کا بڑا ریلا آیا جس سے ڈیم میں پانی کی سطح 300فٹ سے بلند ہوگئی ہے ۔ 24ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط اس ڈیم سے کراچی کے ضلع غربی کو پمپنگ اسٹیشنز سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ 

خشک سالی کے نتیجے میں گزشتہ کچھ عرصے سے حب ڈیم میں پانی کی حد صرف ایک فٹ رہ گئی تھی اور وہاں سے کراچی کو پانی کی فراہمی بند تھی۔ محکمہ آبپاشی کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈیم میں جمع ہونیوالے ذخیرہ سے کراچی کے ضلع غربی کو چھ ماہ تک پانی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والی بارش سے کراچی میں پانی کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوگیا ہے مگر بلوچستان میں پانی بحران اب بھی برقرار رہے گا کیونکہ ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ایسے ڈیمز موجود نہیں جس سے پانی بحران سے نمٹاجاسکے اور صوبہ سے قحط سالی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ 

بلوچستان میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ زراعت ہے قحط سالی کی وجہ سے یہ شعبہ تباہ ہوکر رہ گیا ہے، زرعی زمینیں بنجر ہو گئی ہیں حالانکہ موجودہ بارشوں سے قحط سالی کا خاتمہ ممکن ہوسکتا تھاجس طرح بارشوں نے تباہی مچاہی اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ صوبہ میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے کوئی بھی منصوبہ نہیں بنایا گیا، اگر پالیسی اور پلان ہوتا تو بارشوں سے نقصانات کی بجائے فائدہ پہنچتا ۔

موجودہ صوبائی حکومت حالات کو بھانپتے ہوئے صوبہ میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بہترین منصوبہ بندی کرے تاکہ آنے والے وقتوں میں بارشیں رحمت کی بجائے زحمت نہ بن جائیں، اور اس سے زراعت کا شعبہ ترقی کرے اور قحط سالی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔