|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2019

اسلام آباد : فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل کے چیئرمین سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا ہے کہ پسماندہ علاقوں میں اتنا کام نہیں کیا گیا جتنا ہونا چاہیے تھا،کمیٹی کو این جی اوز کی فہرست اور منصوبوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں،ٹی وی او کے دفاتر کو زیادہ سے زیادہ فعال بنایا جائے ۔ جمعرات کو ایوان بالاء کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے مسائل کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ 

فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں رضاکارانہ تنظیم کے ٹرسٹ (ٹرسٹ فار ولینٹری آرگنائزیشن)کے کام کے طریقہ کار ، بجٹ ، ملازمین کی تعداد ملک کے پسماندہ علاقوں بشمول فاٹا میں منصوبہ جات کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری معاشی امور ذوالفقار حیدراور ٹی وی او کے حکام نے فنکشنل کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کرتے بتایا کہ 1990 میں حکومت نے یو ایس ایڈ کے منصوبے ختم کر دیئے تو ٹی وی او کا ادارہ انڈومنٹ ایکٹ 1890 کے تحت قائم کیا گیا جس میں حکومت اور یو ایس ایڈ نے فیصلہ کیا کہ ایک فنڈ تشکیل دیا جائے جو جاری منصوبوں کی مانیٹرنگ کرے گا اوراس فنڈ میں52 کروڑ رکھے گئے ہیں۔

ڈونرز کی امداد اور اس فنڈ کے منافع کی وجہ سے اب 74 کروڑ روپے اکٹھے ہو چکے ہیں اور ادارے نے 1.27 ارب روپے 1204 این جی اوز کے ذریعے 1422 منصوبوں پر خرچ کیے ہیں جس کا بنیادی مقصد دیہی و چھوٹے شہروں میں کام کرنے والی این جی اوز کو فنڈز فراہم کر کے خواتین کو بااختیار بنانے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی تھا۔ ادارے کا ایک بورڈ آف ڈائریکٹر ہے جس کا کام پالیسی بنانا اور این جی اوز کو مختلف منصوبوں کیلئے فنڈفراہم کرنا ہے۔ 

بورڈ کے12 ممبران ہیں جن میں سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری معاشی امور ایکس آفیسوممبران ہیں جبکہ بقیہ 10 ممبران پرائیوٹ سیکٹر سے لیے جاتے ہیں جن کا تقرر وزیراعظم پاکستان کرتا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ بورڈ کے ممبران کی تقرری 3 سال کیلئے ہوتی تھی اور 2013 سے جب بورڈ ممبران ریٹائرڈ ہوئے تو نئے ممبران کی نامزدگی کیلئے حکومت کو فہرست فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ادرے کا بورڈ 2014 سے نہیں ہے۔بورڈ کی تشکیل نو کیلئے متعدد بار سمری بھیجی گئی مگر ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ادارے کا ہیڈ آفس اسلام آبادمیں ہے اور9 ریجنل دفاتر ہیں جس میں59 کل ملازمین ہیں۔2008 سے2018 تک165 فلاحی منصوبوں سے 3.3 لاکھ لوگوں کی مدد کی گئی۔

4 ہزار لوگوں کو مختلف شعبوں میں تربیت فراہم کی گئی۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بورڈ ممبران کی تقرری کیلئے جتنی سمریاں بھیجی گئی ہیں ان کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد پسماندہ علاقوں کی بہتری و خوشحالی کیلئے کام کرنا تھا۔ا دارے میں غفلت کی گئی ہے۔ 5 سال سے ادارے کا بورڈ ہی تشکیل نہیں دیا جا سکا۔