نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو دہشتگرد حملوں میں 49 افراد شہیدجبکہ 20 سے زائد شدید زخمی ہوئے ہیں۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے مسجد پر فائرنگ کے واقعے کو دہشتگردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں سیاہ ترین دن ہے۔پولیس نے ایک شخص جس کی عمر 20 سال کے قریب بتائی جاتی ہے اس کو گرفتار کر لیا ہے جس پر قتل کا الزام ہے اسے آج عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
پولیس کمشنرمائیک بش کے مطابق ملزمان میں ایک عورت بھی شامل ہے جن کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد ملاجنہیں حراست میں لیا جا چکا ہے۔پولیس کمشنر نے بتایا حراست میں لیے جانے والے تینوں افراد میں سے ایک کو رہا کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔ حملے کا واقعہ ڈین ایوینیو پر واقع مسجد النور اور لن ووڈ مسجد میں پیش آیا۔حملہ آور جس نے سر پر لگائے گئے کیمرے کی مدد سے النور مسجد میں نمازیوں پر حملے کو فیس بک پر لائیو دکھایا، اپنے آپ کو اٹھائیس سالہ آسٹریلین برینٹن ٹارنٹ بتایا۔
ویڈیومیں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح النور مسجد کے اندر مرد، عورتوں اور بچوں پر اندھادھند فائرنگ کر رہا ہے۔ پولیس نے حملہ آور کا فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹ کو ختم کر دیا ہے اور وہ اس فوٹیج کو ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔حکومتی اعدادوشمار کے مطابق نیوزی لینڈ کی آبادی کا صرف 1.1 فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ 2013 کی مردم شماری کے مطابق نیوزی لینڈ میں 46000 مسلمان رہائش پذیر تھے جبکہ 2006 میں یہ تعداد 36000 تھی۔ سات سالوں میں 28 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے اپنے تعزیتی بیان میں کہاکہ کرائسٹ چرچ میں ہونے والے ہیبت ناک دہشت گردی کے حملے کے بعد میں پورے برطانیہ کی طرف سے نیوزی لینڈ کے عوام سے افسوس کا اظہار کرتی ہوں۔ میری دعائیں اس پر تشدد حملے میں متاثر ہونے والے تمام افراد کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہاکرائسٹ چرچ نیوزی لینڈ میں مسجد پر دہشت گرد حملہ نہایت تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے۔
یہ حملہ ہمارے اس مؤقف کی تصدیق کرتا ہے جسے ہم مسلسل دہراتے آئے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ ہماری ہمدردی اور دعائیں متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے حملوں کے پیچھے 9/11 کے بعد تیزی سے پھیلنے والا ’اسلامی فوبیا‘ کارفرما ہے جس کے تحت دہشت گردی کی ہرواردات کی ذمہ داری مجموعی طور پر اسلام اور، سوا ارب مسلمانوں کے سر ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔
مسلمانوں کی جائز سیاسی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے لیے بھی یہ حربہ آزمایا گیا۔نیوزی لینڈ میں ہونے والے اس دلخراش واقعہ نے یہ ثابت کردیا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ وہ عناصر ہیں جو دنیا تفریق اور نفرت پھیلانے کیلئے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ، جس طرح سے حملہ آور نے مسجد میں داخل ہوکر فائرنگ کی اس بات کو واضح کرتی ہے کہ مکمل ٹریننگ یافتہ تھا بہرحال یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مسلم ممالک پر دہشت گردی کے ٹھکانوں کی موجودگی اور ٹریننگ دینے کا پوری دنیا میں پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے کیا اس حملہ آور کے متعلق کہاجاسکتا ہے کہ اس نے کس جگہ سے تربیت لی اور اس حملے کے پیچھے یہ کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔
دیگر کون اس کے پیچھے ہیں اس لئے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے تمام ممالک کو ملکر دہشت گردی کے مائنڈ سیٹ کا خاتمہ کرنے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک ترقی یافتہ روشن خیال سماج میں ڈالا جا سکے۔ اگر دہشت گردی کو محض ایک مذہب اور طبقہ سے جوڑا جائے گا یقیناًاس سے مزید فاصلے بڑھیں گے اور دہشت گردی کی نفسیات پھلتی رہے گی جوکہ ہماری دنیاکو مزید تباہی کی طرف لے جائے گا۔
نیوزی لینڈ میں دہشت گردانہ حملہ

وقتِ اشاعت : March 16 – 2019