یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں مزید پانچ لاکھ بچے مناسب خوراک کی کمی یا قلت کی وجہ سے لاغر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے 2011 کے سروے کے مطابق ملک میں 44 فیصد بچے سٹنٹڈ یا لاغر ہیں جو اپنی عمر کے اعتبار سے قدرے کم ذہنی و جسمانی نشوو نما کا شکار ہیں۔
پاکستان میں مزید پانچ لاکھ بچوں سمیت دنیا بھر میں 4 کروڑ 80 لاکھ بچوں کے لاغر ہونے کی اس صورتحال سے بچنے کے لیے یونیسیف نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ دنیا بھر میں نقل مکانی یا قحط سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والوں کے لیے تین ارب 34 کروڑ ڈالرز سے زیادہ عطیات جمع کریں تاکہ انہیں خوراک کی کمی کا سامنا کرنے سے بچایا جا سکے۔
یونیسیف کے مطابق پاکستان میں خیبر پختونخوا میں بچوں کے لاغر ہونے کی وجہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور صوبہ سندھ میں شدید قحط ہے۔ایک عام تاثر ہے کہ جو بچے کمزور یا لاغر نظر آتے ہیں ان کا کوئی علاج نہیں اور وہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے لیکن یہ تاثر غلط ہے۔ لاغر ہونے کی چند وجوہات ہوتی ہیں جنہیں اگر دور کر دیا جائے تو علاج ممکن ہے۔
پاکستان میں سٹنٹڈ بچوں میں سے 95 فیصد خوراک کی کمی کی وجہ سے لاغر ہوئے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ وہ وجوہات دور کی جائیں جن کی وجہ سے یہ لاغر ہوئے ہیں یعنی پروٹینز پر مبنی خوراک فراہم کی جائے تو یہ صحت مند ہو سکتے ہیں۔ماہرین سمجھتے ہیں غربت کے باوجود اگر والدین کو بچوں کی خوراک کے بارے میں آگاہی ہو تو یہ اپنے بچوں کو مناسب خوراک فراہم کر سکتے ہیں اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشو ونما معمول کے مطابق ہو سکتی ہے۔
یونیسیف پاکستان کی سربراہ اینجیلا کیرنی کاکہناہے کہ پاکستان کو خوراک کی کمی اور لاغر ہوجانے والے بچوں کے معاملے میں ایمرجنسی کا سامنا ہے جنہیں مناسب نکاسی میسر نہیں۔عالمی اپیل اور جنوبی ایشیا ء کی اپیل میں یونیسیف پاکستان پانچ لاکھ بچوں کے لیے عطیات کا مطالبہ کر رہا ہے جن کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ اْنھیں غذائیت میں کمی اور نکاسی کے نظام تک رسائی حاصل نہیں۔
اینجیلا کیرنی کے مطابق سندھ میں خاموش ایمرجنسی کا بھی سامنا ہے جہاں شدید قحط کی صورتحال ہے کیونکہ وہ صحرائی علاقہ ہے۔بلوچستان میں گزشتہ کئی برسوں سے قحط سالی ہے جس کی وجہ سے صوبہ میں خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں یہ وہ متاثرہ علاقے ہیں جہاں اس وقت سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور آگاہی مہم میں تیزی لانے چاہئے تاکہ ماں اور بچوں کو مناسب خوراک لینے پر زور دیا جائے ویسے بلوچستان کے یہ علاقے انتہائی پسماندہ اور غربت کا شکار ہیں اس لئے روزانہ مناسب خوراک ان کی سکت سے باہرہے۔
بلوچستان میں اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر نیوٹریشن پروگرام کا آغاز کردیا ہے مگر اس کیلئے عالمی ادارے کے تعاون کی اشد ضرورت ہے کیونکہ صوبائی حکومت اپنے وسائل کے مطابق کام کررہی ہے مگر اس گھمبیر صورتحال سے نکلنے اور جامع منصوبہ بندی کیلئے عالمی ادارے کا کردار انتہائی اہم ہے جب ایسے حالات دنیا کے دیگر ممالک میں پیدا ہوتے ہیں تو باقاعدہ مرکزی حکومتیں اپیل کرتی ہیں تاکہ بروقت اس مسئلے سے نمٹا جاسکے ۔
وفاقی حکومت بھی عالمی ادارے کے تعاون سے بلوچستان سمیت ملک بھر میں غذائی قلت کے شکار علاقوں میں وسیع ترپیمانے پر کام کا آغازکرے تاکہ خواتین اور بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایاجاسکے۔
حال ہی میںیونیسیف کی جانب سے مزید پانچ لاکھ بچوں کے لاغر ہونے کی پیشگوئی خطرناک ہے اگر اس اہم نوعیت کے مسئلے پر اب بھی توجہ نہیں دی گئی تو اس کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے لہٰذا وفاقی حکومت عالمی ادارے کے تعاون سے ہی اس صورتحال سے نکلنے کے لیے جامع لائحہ عمل ترتیب دے ۔
غذائی قلت ،وفاق وعالمی ادارے کا تعاون
وقتِ اشاعت : March 19 – 2019