لاہور: چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے قابل ضمانت مقدمے میں درخواست مسترد کرنے پر ماتحت عدلیہ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قابل ضمانت مقدمے میں عدالت ضمانت مسترد کرہی نہیں سکتی۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے قابل ضمانت مقدمے میں ملزموں کو ضمانت نہ دینے پر ہائی کورٹ اورٹرائل عدالت پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ قابل ضمانت مقدمے میں عدالت ملزم کی ضمانت مسترد کرہی نہیں سکتی، حیرت ہے کہ ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے بھی نہیں دیکھا کہ ضمانت مسترد نہیں ہوسکتی تھی، حالانکہ قانون میں یہ بات لکھی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ اور ٹرائل کورٹ نے کیسے نظراندازکردیاکہ ضمانت مسترد نہیں ہوسکتی تھی، ایسے معاملوں کو تو عدالت میں آنا ہی نہیں چایئے مگر یہ معاملہ تیسری عدالت تک آگیا، اس حوالے سے تو پنجاب کے آئی جی نے بھی ایس ایچ اوزکو ہدایات دے دی ہیں کہ ایسے مقدمات میں ایس ایچ او خودضمانتیں دے سکے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا قانون دیکھنا صرف سپریم کورٹ کا کام ہے۔
سپریم کورٹ نے لڑائی اور مارکٹائی کے 2 ملزموں یاسر خان روکھڑی اور عمرخان روکھڑی کی پچاس ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض عبوری ضمانتیں منظور کرلیں۔
ملزموں کے خلاف لاہور کے تھانہ ڈیفنس اے میں لڑائی جھگڑے کا مقدمہ درج ہے اور انہوں نے ضمانت قبل ازگرفتاری کےلئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔