|

وقتِ اشاعت :   March 23 – 2019

23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی جو قیام پاکستان پر ہونے والی لازوال جدوجہد پر مہر ثبت ثابت ہوئی۔برصغیرپاک و ہند میں جب مسلمانوں کی محرومیاں حد سے تجاوز کر گئیں تو ان میں ایک نئے وطن کی صدا بلند ہونے لگی اور قیام پاکستان کی لہر چل پڑی جس نے تاریخ میں مسلمانوں کو الگ پہچان اور رتبہ دلایا۔

23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرصدارت مسلم لیگ کا تاریخی سالانہ اجلاس منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے دوران شیر بنگال مولوی فضل الحق نے تاریخی قرار داد پیش کی۔قرار داد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے کیا جب کہ اس کی تائید میں خان اورنگ زیب خان، حاجی عبداللہ ہارون، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چند ریگر، مولانا عبدالحامد بد ایونی اور دوسرے مسلم اکابرین نے تقاریر کیں۔

رہنماؤں کی تقاریر کے بعد مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی قرار داد اکثریت رائے سے منظور کر لی گئی جسے قرار داد لاہور کا نام دیا گیا۔قرار داد میں کہا گیا کہ ہندوستان کے وہ علاقے جو مسلم اکثریتی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

ان کی حد بندی ایسے کی جائے کہ وہ خود مختار آزاد مسلم ریاستوں کی شکل اختیار کرلیں۔منظور کی گئی قرار داد پاکستان کے مطابق جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں انہیں آئین کے تحت مذہبی، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے کیونکہ ہندوستان کا موجودہ آئین مسلمانوں کے حقوق پورے نہیں کر رہا۔

اسی قرار داد پاکستان کے 7 برس بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کرہ ارض پر وجود میں آیا اور پوری آب و تاب کے ساتھ چمکا۔قرارداد پاکستان کے صحیح متن اور بانیان پاکستان کے نظریہ کاموازنہ کیاجائے تو یقیناًآج بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

جس معاشرے کا خواب دیکھاگیا ،جس کیلئے انتھک قربانیاں دی گئیں اور ایک آزاداسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی گئی اسے ابھی مکمل ہونا باقی ہے سب سے اہم کردار سیاسی جماعتوں کا ہے جنہوں نے ملک کی ترقی، امن، عوام کی فلاح وبہبود کیلئے ایک وژن کو آگے بڑھانا ہوگا تاکہ ملک سے ایک عظیم وطن کا سفر ہم طے کرسکیں۔ملکی دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے ساتھ ہی اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی طاقت ہے ، اس کی طرف کوئی بھی میلی آنکھ سے دیکھ نہیں سکتا ،ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 

پاکستان کے معرض وجود آنے کے بعد برصغیر کے مسلمان ہر قسم کی غلامی سے آزاد ہوئے مگر ستر سالوں کے دوران خوشحالی کے وہ اہداف حاصل نہیں ہوئے جس کا خواب بانیان پاکستان نے دیکھا تھا یقیناًیہ ذمہ داری ہمارے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ سیاست سے بالاتر ہوکر ملک کے وسیع ترمفاد میں اپنا کردار ادا کریں۔پاکستان میں اقلیتوں کو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہے بلکہ تمام مذاہب کے لوگ آزادانہ طور پر اپنے رسم ورواج کے زندگی گزارتے ہیں۔

آج اس عہد کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے اتحاد واتفاق پر زور ددیاجائے گا،اپنے معاشرے سے انتہاپسندی ،پُرتشدد ذہنیت کا خاتمہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی سوچ کو پروان چڑھایا جائے گا جس میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ،یہی واحد ہتھیار ہے جو ہمیں اندرونی چیلنجز اور بحرانات سے نکالنے میں کارآمد ثابت ہوگی۔ 

قرارداد پاکستان اور بانیان پاکستان کی قربانیاں آج یہ تقاضہ کرتی ہیں کہ ہمیں مساوات اور برابری کی بنیاد پر معاشرے کو تشکیل دینا ہوگا تاکہ ہم عظیم وطن کا خواب پورا کرسکیں اور ترقی کے منازل طے کرسکیں۔