|

وقتِ اشاعت :   March 25 – 2019

پاکستان اور افغانستان نے اب سرحد عبور کرنے والے تمام عمر کے افراد کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین یا قطرے دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کا آغاز دونوں ممالک کی جانب سے 25 مارچ سے ہوگا۔دس سال سے زائد عمر کے افراد پر اگرچہ یہ وائرس حملہ نہیں کرتا لیکن یہ لوگ وائرس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں۔

حکام کے مطابق خیبر پختونخوا میں طورخم اور صوبہ بلوچستان میں چمن کے مقامات سے روزانہ 20 سے 25 ہزار افراد پاک افغان سرحد عبور کرتے ہیں۔ دونوں ممالک میں پولیو کے خاتمے کے لیے اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سفر کرنے والے تمام عمر کے افراد کو یہ قطرے دیے جائیں گے اور انھیں ایک کارڈ جاری کیا جائے گا۔ 

خیبر پختونخوا ہ اور بلوچستان میں ایمرجنسی آپریشن سنٹر کے عہدیدار ان کا کہنا ہے کہ بڑی عمر کے افراد میں قوت مدافعت بچوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اس لیے پولیو کا وائرس ان پر اثر نہیں کرتا لیکن بڑی عمر کے افراد کے جسم میں وائرس موجود ہو سکتا ہے، اس لیے پانچ سال سے بڑی عمر کے افراد وائرس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتے ہیں۔ 

روزانہ دس سے تیرہ ہزار افراد طور خم سرحدعبور کرتے ہیں اور اسی طرح آٹھ سے بارہ ہزار افراد چمن سرحد پر سفر کرتے ہیں جن کی مجموعی تعداد تقریباً20 سے 25 ہزاربنتی ہے ۔انسداد پولیو کے ان قطروں کا اثر کچھ عرصے کے لیے ہوتا ہے تو جن لوگوں کو یہ ویکسین دی جائے گی انھیں ایک کارڈ بھی جاری کیا جائے گا اور یہ کارڈ ایک مخصوص دورانیے کا ہوگا اور جب اس کارڈ کا وقت مکمل ہو جائے گا تو اس شخص کو پھر سے انسداد پولیو کے یہ قطرے دئیے جائیں گے۔ 

اس سے پہلے سرحد پر دس سال تک کے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے دئیے جاتے تھے لیکن حالیہ دنوں میں ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سفر کرنے والے بھی اس کی ایک وجہ ہیں۔اس کے علاوہ افغانستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں دیے جا سکتے اور اگر وہ بچے یا بڑے کہیں سفر کرتے ہیں تو وہ جراثیم کہیں بھی لے جا سکتے ہیں۔

انٹرنیشنل ہیلتھ ریوولیشن کے مطابق دونوں ممالک میں پولیو وائرس کے بلاکس ہیں اس لیے کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور افغانستان سے دیگر ممالک کو سفر کرنے والے افراد پر یہ لازمی قرار دیا گیا تھا کہ ان کے پاس انسداد پولیو کے قطرے لینے کی سرٹیفکیٹ ہونی چاہیے۔ حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جانے والے افراد پر بھی لازمی ہوتا ہے کہ وہ انسداد پولیو کے قطرے لیں وگرنہ انہیں اجازت نہیں دی جاتی۔

پاکستان میں مختلف ایسے علاقے ہیں جہاں پولیو کا وائرس موجود ہے ان علاقوں میں کراچی کے بعض مقامات ، کوئٹہ ، پشاور اور وزیرستان جیسے علاقے وائرس کے مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ دیگر علاقوں میں اگر وائرس کی موجودگی ہوتی بھی ہے تو ان کے لنک کسی نہ کسی وجہ سے انہی علاقوں سے ملتے ہیں۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خاص طور پر قبائلی علاقوں میں اور ادھر افغانستان کی جانب لوگ سفر بہت زیادہ کرتے ہیں اور حرکت میں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے شواہد ملے ہیں جن سے معلوم ہوا ہے کہ وائرس کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ یہ سفر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جب جاتے ہیں تو یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنے جسم میں پولیو کا وائرس بھی ساتھ لے جائیں جہاں شاید پہلے یہ وائرس موجود نہ ہو۔ جینیٹک تجزیے سے بھی معلوم ہوا ہے کہ وائرس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئے ہیں۔

پاکستان میں رواں سال تین ماہ کے دوران پولیو کے 6 کیسز سامنے آئے ہیں ان میں چار بچے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں سے جبکہ دو بچے سندھ اور پنجاب میں متاثر ہوئے ہیں۔دوسری جانب صوبائی حکومت کی جانب سے بھی پولیو کے حوالے سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔

خاص کر ب فارم کے اجراء اور اسکول داخلے کے دوران پولیو سرٹیفکیٹ کو ضروری قرار دیا گیا ہے جبکہ بلوچستان کے تمام علاقوں میں موجود بنیادی مراکز صحت میں حفاظتی ٹیکوں کی سہولیات کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے تاکہ پولیو جیسے موذی مرض کا صوبہ سے خاتمہ یقینی ہوسکے۔ بلوچستان میں گزشتہ سال ضلع دکی میں پولیو کے تین کیسز رپورٹ ہوئے تھے جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر 11بار پولیو مہم چلائی گئی تھی جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ 

رواں سال بلوچستان میں کوئی بھی پولیو کیس سامنے نہیں آیا ہے ۔ بلوچستان میں پولیو مہم کے حوالے سے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی اہم کردار ادا کررہی ہیں اس عمل کے بعد بلوچستان میں پولیو مہم کے دوران بچوں کی ویکسینیشن کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔