نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والے ہولناک سانحہ کے بعد جس طرح وہاں کی حکومت اوردیگر ذمہ داران نے کردار ادا کیا اسے ہر سطح پر سراہا جارہاہے ۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے ایک واضح پیغام دنیا بھر میں گیا کہ دہشت گردی ایک نفسیات ہے جس کا تعلق کسی مذہب، قوم یا ملک سے نہیں ہوتا۔
اس پورے دورانیہ میں نیوزی لینڈ کے حکام اور عوام نے متاثرین کے ساتھ عملی طور پر یکجہتی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے معاشرے کی بہترانداز میں نمائندگی کی۔ اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ معاشرے کو پُرتشدد رویہ سے پاک کرنے کیلئے دہشت گردانہ نظریہ کو کسی صورت اپنے درمیان جگہ نہیں دینا چاہئے ۔
اس کی تربیت ریاست اپنے عمل سے ہی کرتی ہے کہ کس طرح عوام میں ترقی پسندانہ اور انسان دوستی کی سوچ کو پروان چڑھانا ہے تاکہ ملک میں بسنے والے عوام کو کوئی بھی اپنے مذموم عزائم حاصل کرنے کیلئے ہتھیار نہ بناسکے۔
نائن الیون کا واقعہ جب رونما ہوا تو امریکہ جیسے ملک میں پُرتشدد واقعات دیکھنے کوملے جہاں ہر داڑھی رکھنے والے شخص کو مسلمان سمجھ کر نشانہ بنایاگیا چند دہشت گردوں کے اس عمل کو مذہب سے جوڑا گیا۔ بالکل اسی طرح ہمارے یہاں بھی ہوتا آرہا ہے جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تقسیم درتقسیم کا شکار ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ملک کی ترقی سوچ سے ہوتی ہے اور اس کی تربیت کا سارا دارومدار ریاست اور سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں پر منحصر ہے ،جو بیج بویاجائے گا وہی کاٹاجائے گا۔
نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والے واقعہ پر یہ دیکھنے کو نہیں ملا کہ ایک سیاسی واویلاسامنے آتا کہ اس پر ایک کمیشن قائم کی جائے، اس سانحہ کو سیاسی بنیاد پر استعمال کیاجاتا جوکہ تیسری دنیا کے ممالک میں خاص کر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور ہمارے یہاں تو یہ روایت پروان چڑھ چکی ہے بجائے یہ کہ اس طرح کے سانحات پر مشترکہ حکمت عملی وضع ہونی چاہئے ۔
نیوزی لینڈ کے سانحہ کے بعد حکومت خود ہی فرنٹ لائن پر آئی خاص کر وزیراعظم اس میں انتہائی متحرک رہیں۔ گزشتہ روز نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن نے کرائسٹ چرچ میں مساجد پر ہونے والے حملوں کی اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم دے دیا ،وزیراعظم کا کہنا تھا کہ رائل کمیشن اس انکوائری کے ذریعے اس بات کا جائزہ لے گا کہ آیا پولیس اور حساس ادارے 15 مارچ کو ہونے والے واقعہ کو روکنے کے لیے مزیدکیا کچھ کر سکتے تھے۔
نیوزی لینڈ کے قوانین کے تحت رائل کمیشن ملک میں غیر جانبدار انکوائری کے حوالے سے سب سے اعلیٰ سطحی فورم ہے۔جاسنڈا آرڈرن کا کہنا تھا کہ کمیشن جامع رپورٹ پیش کرے گی، انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ اہم ہے یہ بات جاننے کے لیے کہ کوئی کسر نہ چھوڑی جائے کہ دہشت گردی کا یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور اس کو کیسے روکا جا سکتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک سوال جس کا جواب ہمیں دینا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمیں کیا پتا ہونا چاہیے تھا اور مزید کیا پتا ہونا چاہیے۔
جاسنڈا آرڈرن کا مزید کہنا تھا کہ اس باقاعدہ انکوائری کے ذریعے نیم خودکار ہتھیاروں تک رسائی اور سوشل میڈیا کے ان حملوں میں کردار سے متعلق سوالات کے جوابات بھی ڈھونڈے جائیں گے۔
نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والے واقعہ کے بعد کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی کہ کس طرح مزید دہشت گردنفسیات کو معاشرے سے ختم کیاجائے، ہمارے یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ دو طرفہ انتہاء پسندی کی بھینٹ ہمارا معاشرہ چڑھ رہا ہے جس میں حقیقی ترقی پسند پس رہے ہیں مگر اولین ذمہ داری ریاست کی بنتی ہے کہ وہ کس طرح سے معاشرے سے انتہاء پسندانہ اورپُرتشدد سوچ کو ختم کرنے کیلئے ایک پُرامن ماحول عوام کو فراہم کرے گی چونکہ یہ مسئلہ صرف ہمارے یہاں نہیں بلکہ مغرب میں بھی اس طرح کی سوچ پائی جاتی ہے ،البتہ آج نیوزی لینڈ کی ریاست اور حکمرانوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ دہشت گردی محض ایک نفسیات ہے جس کا کسی مذہب،قوم سے تعلق نہیں ہوتا ۔
دہشت گردانہ نفسیات اور ریاست کی ذمہ داری
وقتِ اشاعت : March 26 – 2019