|

وقتِ اشاعت :   March 30 – 2019

کوئٹہ: پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے بلوچستان میں پہلے سے افتتاح کئے گئے منصوبوں کا آج دوبارہ افتتاح کیا ہے۔ 

پیپلزپارٹی نے آغاز حقوق بلوچستان کے تحت بلوچستان کا بیانیہ دیامنصوبوں کے افتتاح سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہونگے، صوبے سے متعلق ہونے والے بین الااقوامی معاہدوں میں صوبے کی حقیقی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے ۔ 

لاپتہ افراد کا مسئلہ اخترمینگل کے 6نکاتی ایجنڈے کاحصہ ہے پارلیمنٹ میں انکا ساتھ دے رہے ہیں، معدنی وسائل پر اختیارات نہ ہونا اور بے روزگاری بلوچستان کے سب سے بڑے مسائل ہیں، نیب موجودہ حکومت کے لیے سموک اسکرین کا کردار ادا کر رہی ہے ۔

تبدلی سرکار کے پاس ملک کو دینے کے لیے کچھ نہیں، ایک سال میں تین بجٹ پیش کرنے والوں نے 9 ماہ میں اسٹیٹ بینک سے تین کھرب روپے کے قرضے لیے ہیں، پنجاب کی سب سے بڑی پسماندگی عثمان بزدار ہے۔ پیپلز پارٹی بجٹ پیش ہونے کا انتظار کررہی ہے جس کے بعد سڑکوں پر نکلے گی ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز کوئٹہ پریس کلب میں پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے صوبائی اور ضلعی سیکرٹری اطلاعات اور شعبہ نشر واشاعت کے اجلاس کے اختتام پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

اس موقع پر پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر حاجی علی مدد جتک، صوبائی جنرل سیکرٹری سید اقبال شاہ اور صوبائی سیکرٹری اطلاعات سردار سر بلند جوگیزئی دیگر پارٹی رہنماء بھی موجود تھے ۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ اتفاق سے آج وزیراعظم اور تبدیلی سرکار کے سرپرست عمران خان بھی بلوچستان میں موجود ہیں جنہوں نے پہلے سے افتتاح کئے گئے سی پیک منصوبے ژوب سے کوئٹہ شاہراہ کا ایک مرتبہ پھر کوئٹہ سے ژوب کا افتتاح کیا ہے ۔

وزیراعظم نے گوادر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے منصوبے گوادر ائیر پورٹ کا افتتاح کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج سے قبل بھی ہم نے بہت سے منصوبوں کے افتتاح ہوتے دیکھے ہیں تاہم بلوچستان کے عوام نے ان منصوبوں کو ختم ہوتے نہیں دیکھا ۔ سی پیک کے نام پر سابق حکومت نے بہت سارے منصوبے بنائے مگر یہ منصوبے بلوچستان میں نظر آنے کی بجائے کہیں اور نظر آرہے ہیں۔

منصوبے کے تحت ہونے والے اخراجات میں بلوچستان کو دو فیصد سے بھی کم رقم ملی ہے محض افتتاح کرنے سے بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہونگے صوبے کے مسائل کے حل کیلئے مثبت سوچ کو پراون چڑھانے کی ضروت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بلوچستان میں شورش اور نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت پرصوبے کے لوگوں سے معافی مانگی حالانکہ اس کی ذمہ دار پاکستان پیپلز پارٹی نہیں تھی۔

آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کرکے پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبے کے لوگوں کے لیے ایک بیانیہ دیا کہ وفاق سے بلوچستان کی دوری کو ختم کرنے بلوچستان کی معدنیات اور وسائل کو عوام کے اختیار میں دینے اور بے روزگاری کے خاتمے سمیت دیگر نکات کو 18 ویں آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ملک میں ایک بہت بڑی تبدیلی لانے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک کروڑ گھر تعمیر کرنے لاکھوں نوکریاں فراہم کرنے اور عوام کو انصاف فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ مگر 8 ماہ بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت نے بلوچستان میں ژوب سے کوئٹہ شاہراہ کا دوبارہ کوئٹہ سے ژوب تک افتتاح کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح وفاق میں بلوچستان کیساتھ ناانصافی ہورہی ہے وہی رویہ سندھ کیساتھ بھی روا رکھا گیا ہے وفاقی حکومت سندھ کے 120ارب روپے دباکر بیٹھی ہے ۔ پشاور میں بی آر پی منصوبہ مکمل ہوئے بغیر اس پر 80 ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔

پنجاب میں بھی کہیں نہ کہیں محرومی ضرور ہے مگر پنجاب کی سب سے بڑی محرومی عمران خان کے سیاسی وسیم اکرم عثمان بزدار ہیں جنہیں ابھی تک یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ان کی کا رکردگی کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں بلاول بھٹوزرداری کی صورت میں صرف ایک آواز ہے جو عمران خان اور انکی کابینہ کو چیلنج کررہی ہے حکمرانوں نے 26 اور27 مارچ کو ٹرین مارچ کی ایک جھلک دیکھی ہے ابھی اس قافلہ کو لاڑکانہ سے آگے بھی جانا ہے ۔

قافلہ کے قائد نے چار اپریل کو شہید ذوالفقار علی بھٹوکی برسی پر لاڑکانہ میں قیام کیا سفر کے دوران جس چھوٹے بڑے اسٹاپ سے یہ قافلہ گزرا ہزاروں کارکنوں کے ہجوم نے آٹھ گھنٹے انتظار کرکے ان کا والہانہ استقبال کیا جس سے حکمران کابینہ میں شامل لوگ خوف میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے عوام کو نو ماہ کے دوران کچھ نہیں دیا بلکہ عوام سے بہت کچھ لے گئی ہے ۔

ہر ماہ لوگوں سے اضافی بلوں کے مد میں رقم وصول کرنے کے باوجود مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہاہے کسی حکومت میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک سال میں تین بجٹ پیش کئے جائیں ۔ 

خدشہ ہے کہ بجلی اور گیس کے بل اتنے بڑھیں گے کہ لوگ قرضے لیکر انکی ادائیگی کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو نو ماہ بعد خیال آیا ہے کہ سوشل پروٹیکشن پر کام کیا جائے جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے دور میں 6 ماہ بعد دنیا کے سب سے بڑے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے سوشل سیکٹر پروگرام کا افتتاح کیا جس سے 50 لاکھ خاندان مستفید ہورہے ہیں موجودہ حکومت نے سروے کی آڑ لیکر ان خاندانوں کو رقم کی ادائیگی روک دی ہے ۔

بلوچستان میں نواب زہری کی حکومت کوگرانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں نواب زہری کی حکومت کوگراتے وقت صوبے میں پیپلز پارٹی کا ایک بھی رکن اسمبلی نہیں تھانہ اس میں ہمارے کسی پارٹی رہنماء نے عملی طورپرکردارادا کیا۔ 

پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومتی ناکامی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سندھ میں پی پی کوکارکردگی کی بنیادپرووٹ مل رہاہے اس وقت جب گیارہویں سال ہماری حکومت سندھ میں ہے پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں تھرپارکرکے لوگوں کو 10سال سے مفت میں گندم فراہم کیا جارہاہے ۔ 

پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ایک سوبیس ڈالرفی بیرل پیٹرول کی قیمت تھی اوریہاں60روپے فی لیٹرتھی، بجلی کابل ابھی12سے 15روپے فی یونٹ ہے ہمارے دورمیں4سے6روپے فی یونٹ تھا،ہم نے قرضے لئے عوام کوفائدہ پہنچایااورکسانوں کومفت میں بھیج تقسیم لوگوں کو گندم فراہم کیاابھی حالات اس نہج پرپہنچ چکی ہے کہ کسان اپنے کھیتوں سے بے دخل ہوکرشہروں کی جانب نقل مکانی کررہے ہیں ۔ جب سے رزاق داؤدآئے ہیں ڈسکون کوٹھیکے مل رہے ہیں۔ 

چیئرمین سینیٹ کی حمایت سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں توازن لانے کیلئے پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے بلوچستان کوعزت دے کرایسی شخصیت کو چیئرمین سینٹ منتخب کیا جو ن لیگ کا سامنا کرسکتا ہو موقع کی مناسبت سے یہ فیصلہ درست تھا ۔