|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2019

کوئٹہ :  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کے اراکین ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کئے جانے کیخلاف رواں سیشن کے تیسرے اجلاس میں بھی احتجاج جاری رکھا۔ حزب اختلاف کے اراکین نے بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شرکت کی ۔

حکومتی اور اپوزیشن اراکین کا بیک وقت مسلسل بولنے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دی، اپوزیشن اراکین نے ایوان میں احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے پی ایس ڈی پی سے متعلق اسپیکر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا ۔

ہفتہ کواسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں وزیراعلیٰ میر جام کمال نے ایک لمبی تقریر کی جس کے دوران اپوزیشن پر تنقید بھی کی چونکہ وہ قائد ایوان ہیں ۔

اس لئے ہمیں مناسب نہیں لگا کہ اس دن ان کی تقریر کے بعد اظہار خیال کریں ہمارا بنیادی حق ہے کہ ہم پر کوئی تنقید کرے یا اپنی رائے کا اظہار کرے تو ہم اپنا جواب دیں ۔

وزیراعلیٰ نے خود کو اعلیٰ و ارفع ثابت کرنے کی کوشش میں ایسی تقریر کی جس سے بیرون ملک بیٹھے لوگوں نے سوچا ہوگا کہ بلوچستان آباد ہوگیا کیوں نہ ہم بلوچستان جا کر واشک میں یا کہیں اور رہائش اختیار کریں انہو ں نے کہا کہ جمہوریت کے کچھ اصول ہوتے ہیں جمہوریت باعمل زندگی گزارنے کو کہتے ہیں سیاسی و جمہوری عمل ایک اخلاقی علم ہے ۔

اس ایوان میں بیٹھے ہوئے لوگ عوام کے منتخب نمائندے ہیں جو حیثیت حزب اقتدار کی ہے وہی حیثیت حزب اختلاف کی بھی ہے خدا کے لئے بلوچستان کی ترقی کے تمام زاویوں پر سوچاجائے اورقدم اٹھایا جائے ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں صرف اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ جن جن حلقوں سے ہمارا تعلق ہے ان حلقوں کے عوام کو اس لئے حقوق سے محروم نہ کیا جائے کہ ہم اپوزیشن میں بیٹھے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اقتدار کے لوگ تسلیم کریں یا نہ کریں حزب اختلاف کے اراکین بھی اپنے حلقو ں کے منتخب نمائندے ہیں انہوں نے کہا کہ 25جولائی2018ء سے قبل اس ایوان میں موجود لوگ اس وقت کے منتخب نمائندے تھے اور آج جواراکین یہاں بیٹھے ہیں وہ آج کے منتخب نمائندے ہیں مگر افسوس کہ ہمیں بدنام کرنے کے لئے غیر منتخب لوگوں کی سرپرستی کی جارہی ہے اور وہ ہمارے حلقوں میں جا کر دعویٰ کرتے ہیں کہ جنہیں آپ نے منتخب کیا ہے وہ ایک روپیہ کا کام بھی نہیں کرسکتے ہم آپ کو واٹر سپلائی ،ر وزگار اور ترقیاتی منصوبے دیں گے حلقوں میں مداخلت سے متعلق ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں ۔

اس رویئے کو کسی صورت بھی جمہوری رویہ نہیں کہا جاسکتا ۔ حکومت نے پی ایس ڈی پی 2018-19ء پر تالے لگادیئے ہیں جس پر ہم اپنے خدشات کااظہار کررہے ہیں تاکہ رقم کو لیپس ہونے سے بچایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت دعوے کررہی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم خضدار سے منتخب ہونے والے رکن یونس عزیز زہری نے اپنے حلقے میں سابق ادوار میں ہونے والے کروڑوں کے کرپشن کی نشاندہی کی جس پر کمیٹی بھی قائم کی گئی لیکن تحقیقات ہوئیں اور نہ ہی کمیٹی کا کوئی اتہ پتہ چل رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سیندک اور ریکوڈک منصوبے کے دفاع کے لئے ایوان میں قرار داد منظور کرائی جس پر 16اکتوبر2018ء کو کمیٹی قائم کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا لیکن چھ ماہ کا عرصہ مکمل ہونے کو ہے اب تک نہ تو کمیٹی کو کوئی ٹاسک دیا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی اجلاس منعقد ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں قانون سازی کی بات ہورہی ہے حکومت بتائے کہ نو ماہ میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کتنے قوانین اس ایوان سے پاس کرائے گئے حکومتی اراکین سفید کاغذ کو سیاہ کرکے قوانین ایوان میں پیش کرتے ہیں اورتوڑی دیر بعد واپس لے لیتے ہیں ۔

بلوچستان میں سرعام گولڈ اور کاپر کی کرپشن ہورہی ہے کرپشن کو روکنے کے لئے مزید قوانین بنانے کی بجائے حکومت پہلے سے موجود قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔کوئٹہ شہر میں سرعام منشیات فروخت ہورہی ہے حکومت بتائے کہ کیا مجبوری ہے کہ وہ منشیات کی خریدوفروخت کو روکنے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کرپائی کوئٹہ میں کھانے پینے کی اشیاء کے نام پر لوگوں کو زہری کھلایا اور پلایا جارہا ہے اس پر حکومت کیوں کوئی ایکشن نہیں لیتی ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں قائدا یوان نے اپوزیشن اراکین کے حلقوں میں جن سڑکوں کی تعمیر کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی یہ منصوبے سی پیک منصوبے کے تحت ہورہے ہیں حکومتی اراکین یہاں آکر وقت ضائع کرکے لوٹ جاتے ہیں ان گزرے ماہ میں کوئی قابل ذکر منصوبہ بندی نہیں کی گئی ،ہم نے حکومت کو کرپشن کے کیسز دیئے ہیں کہ خدا راکرپشن کا یہ کچرہ یہاں سے اٹھائیں مگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج ختم نہیں ہوا یہ جاری رہے گا۔اس دوران اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اراکین کے مسلسل بولنے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دی۔ سپیکر بار بار اراکین کو بیٹھنے اور ایک ایک کرکے بولنے کی تاکید کرتے رہے ۔

وزیر خزانہ میر عارف محمد حسنی نے کہا کہ سیندک اور ریکوڈک منصوبوں سے متعلق کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا حکومت کا نہیں اسمبلی سیکرٹریٹ کی ذمہ داری ہے جس پر سپیکر نے کہا کہ پیر کو مذکورہ کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف میں ہونے والے6 نکاتی معاہدے میں بی اے پی فریق نہیں ہے پی ایس ڈی پی سے متعلق جو تفصیلات مانگی گئی تھیں معزز اراکین کو فراہم کردی گئیں اگر انہیں مزید تفصیلات چاہئیں تووہ بھی دے دی جائیں گی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسا کوئی عمل نہیں دہرائیں گے جس سے ایوان کا وقار مجروح ہوہر مسئلے پر قانونی دائرے میں رہتے ہوئے بات چیت سے مسائل حل کریں گے انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹیاں آج بنی ہیں ۔

اسمبلی سیکرٹریٹ جلدا زجلد ان کا اجلاس طلب کرے تاکہ ان کمیٹیوں کے سربراہان کا انتخاب عمل میں لایا جائے اور پی ایس ڈی پی کا معاملہ بھی متعلقہ کمیٹی میں زیر غور لایا جائے اگر پھر بھی معزز اراکین قائمہ کمیٹی سے بھی مطمئن نہیں ہوتے تو وہ چاہیں تو ایوان کی کمیٹی بنائی جائے گی ۔

انہوں نے آفیشل گیلری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک محکمے کا سیکرٹری صاحب موجود ہے باقی کوئی افسر نہیں آیا میں بیورو کریسی کے اس رویے کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا تھا تاہم مجھے ساتھیوں نے اس سے روکا انہوں نے کہا کہ سپیکر اجلاسوں میں شرکت یقینی نہ بنانے والے افسران کے خلاف انضباطی کارروائی عمل میں لائیں جس پر سپیکر نے سیکرٹری اسمبلی کو اس بابت متعلقہ حکام کو خط لکھنے کی ہدایت کی ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ملک نصیر شاہوانی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی مگر اس کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی وہ خبر یہ ہے کہ عالمی بینک نے بلوچستان میں پانی کے حوالے سے اپنا 20کروڑ ڈالر کا منصوبہ معطل کردیا ہے یہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے ورلڈ بینک کو بھی خدشہ ہے کہ کہیں یہ رقم کرپشن کی نذر نہ ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ قائد ایوان نے گزشتہ روز کے اجلاس میں لمبی تقریر کی ہم اس امید کااظہار کررہے تھے کہ وہ اپوزیشن کے مطالبے پر پی ایس ڈی پی سے متعلق کمیٹی کے قیام کا اعلان کریں گے لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کرپشن کی شکایات آرہی ہیں جس کا ثبوت عالمی بینک کا اپنا بیس کروڑ ڈالر کا خطیر منصوبہ معطل کرنا ہے حالانکہ بلوچستان وہ صوبہ ہے جہاں کے80فیصد لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور خود صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے60فیصد لوگ ایسے ہیں جو ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے ہمارا احتجاج جاری ہے ہم نے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے تفصیلات مانگی تھیں جو فراہم نہیں کی گئیں اور صرف دو صفحات ہمیں تھمادیئے گئے اس معاملے پر اپوزیشن اراکین نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے ملاقات بھی کی مگر انہوں نے بھی کسی قسم کی تفصیل دینے سے انکار کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں حکومت نے منع کیا ہے۔بعدازاں اجلاس منگل2اپریل سہ پہر چار بجے تک کے لئے ملتوی کردیاگیا ۔