پاک چین اقتصادی راہداری منصوبوں میں گوادر فری ٹریڈ زون سمیت پانچ منصوبے خاص کر شامل تھے،جن میں گوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ کا قیام،مقامی افراد کیلئے50 ہزار ملازمتیں ، گوادر میں 150 ارب روپے کی لاگت سے سڑکوں کی تعمیر،300 بستروں پر جدید ہسپتال کا قابل ذکر ہیں ۔اقتصادی راہداری منصوبوں میں فری ٹریڈ زون ،بزنس کمپلیکس آف گوادرپورٹ اتھارٹی، پاک چین پرائمری اسکول، دوڈیمز اورگوادر یونیورسٹی شامل ہیں‘ اس کے علاوہ37 ارب ڈالر توانائی کے شعبے کیلئے مختص کیے گئے تھے۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی گوادر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھا اور دیگر منصوبوں کی جلد تکمیل اورماہی گیروں کے مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔
گوادراس خطے میں تجارتی اور دفاعی حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے دیگر ممالک نے بھی گوادر پورٹ کو چلانے کی پیشکش کی اور چند ایک ممالک نے معاہدے بھی کیے مگر چین واحد ملک ہے جس نے بڑے پیمانے پر گوادر میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا، اس سے قبل کسی بھی ملک نے اتنابڑا سرمایہ گوادر میں نہیں لگایا، چین کی دلچسپی دو پہلوؤں پر مشتمل ہے ایک تجارتی حوالے سے وہ اس خطے میں اپنی مارکیٹ کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
دوسری طرف خطے میں اپنے اثر کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، اس منصوبے کو گیم چینجر کانام دیاجارہا ہے جو ایک حقیقت بھی ہے مگر اس منصوبے کوناکام بنانے کی سازشوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی ہے جس کی برملا نشاندہی ہماری عسکری اور سول قیادت کرتی رہی ہے۔
گوادر اگر میگا سٹی بن جاتا ہے اور اس میں سرمایہ کاری سے پاکستان اپنے معاشی اہداف حاصل کرلیتا ہے تو یہ ایک اچھا اقدام ہوگا مگر اس سے قبل یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ بلوچستان جو سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے اورتمام وسائل ہونے کے باوجود آج بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہے ،ان تمام منصوبوں میں بلوچستان کی برائے راست مکمل شراکت داری ضروری ہے جس پر بارہا زور دیاگیا ہے ۔
لہذا یہ وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوناچاہئے تاکہ گوادرسمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع کے عوام اس منصوبے کو اپنی ترقی اور خوشحالی سمجھیں۔ وزیراعظم عمران خان نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بلوچستان میں وسائل نکلنے کے باوجود یہ آج بھی پسماندہ ہے، اس طرح کے رویوں سے ترقی کے اہداف حاصل نہیں کئے جاسکتے جہاں سے وسائل نکلتے ہیں پہلے اسی علاقے کو ترجیح دینی چاہئے ۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے یہ شکوہ کرتی رہیں ہیں کہ انہیں ہر معاملے میں نظرانداز کیا گیا جبکہ یہاں کے وسائل سے فائدہ وفاق نے اٹھایا ،صوبہ میں کسی بھی جگہ ترقیاتی کام نہیں ہوئے محض اعلانات کئے گئے مگر اب مداوے کا وقت آگیا ہے جس طرح وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان کے عوام سے گزشتہ روز وعدہ کیا کہ موجودہ سرکار تبدیلی کا نعرہ لیکر اقتدار میں آئی ہے اسے عملی طور پر بھی کر دکھائے گی کیونکہ ہمارا مقصد اگلی باری نہیں بلکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے کیونکہ پہلے یہ روایت تھی کہ سیاسی جماعتیں اپنے علاقوں میں کام کرتی تھیں تاکہ وہ اپنی کرسی پکی کریں مگر موجودہ حکومت کی نیت ایسی نہیں۔
بلوچستان آدھا پاکستان ہے اور سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہے باوجود اس کے یہ خطہ وسائل سے مالامال ہے اور سی پیک بھی اسی کا حصہ ہے مگر یہاں کے عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگر بلوچستان کو حقیقی معنوں میں ترجیح دی جائے تو یقیناًصورتحال میں تبدیلی آئے گی۔
امید ہے کہ موجودہ حکومت اپنے وعدوں کوپورا کرتے ہوئے بلوچستان کے منصوبوں سے ملنے والے محاصل کا جائزحصہ صوبہ کو دے گی تاکہ صوبہ اپنے آمدن کے ذریعے درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہوسکے۔
سی پیک ، بلوچستان کی حقیقی شرکت داری
وقتِ اشاعت : March 31 – 2019