|

وقتِ اشاعت :   April 3 – 2019

بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی گزشتہ حکومت کے دور میں نافذ کی گئی تھی جس کیلئے اربوں روپے مختص کئے گئے تھے جبکہ موجودہ حکومت نے بھی اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے تعلیمی ایمرجنسی لگائی ہے ۔

لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسکولوں میں تعلیمی سال کے آغاز کے ایک ماہ گزرنے کے باوجود کورس کی کتابیں فراہم نہیں کی گئی ہیں جس کی وجہ سے طلباء کو حصول تعلیممیں مشکلات کا سامنا ہے ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہورہا بلکہ ایک تسلسل سے یہ روایت جاری ہے۔ 

گزشتہ ادوار میں بھی طلباء کو بروقت کورسز کی کتابیں نہیں ملتیں تھیں ،انہی حالات کی وجہ سے والدین سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کا داخل نہیں کراتے۔ اب اگر لاکھوں بچے آج بھی اسکولوں سے باہر ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ اسکولوں پر توجہ نہ دینا ہے ۔ بلوچستان اگرچہ وسائل کے لحاظ امیر ترین خطہ ہے مگر اس کے عوام پورے خطے میں سب سے زیادہ غریب ہیں جو اتنی بھی سکت نہیں رکھتے کہ اپنے بچوں کوواجبی تعلیم دلانے کیلئے اسکولوں میں داخل کراسکیں ۔ 

اس صوبہ کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں عوامی فلاح و بہبود پر کسی نے بھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ کسی بھی قوم اور خطے کی ترقی علم کے بغیر ممکن نہیں ،دیگر صوبوں میں تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے نہیں کیے جاتے بلکہ عملی طور پر تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اوراسی لیے وہ تعلیمی لحاظ سے بلوچستان سے آگے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر دیگر صوبوں کے لوگوں کو تعینات کیا جاتا ہے ۔

ہمارے طلباء تو بہترین اسکالر شپ سے بھی رہ جاتے ہیں اگر سرکاری سطح پر بھرپور عملی سرپرستی کی جائے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمارے نوجوان اپنا لوہا منوائینگے۔ صوبائی حکومت اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے طلباء کوکتابوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے محکمہ تعلیم کو سخت احکامات جاری کرے اور ساتھ ہی بچوں کو یونیفارم بھی دیئے جائیں تاکہ والدین اور بچوں میں موجود مایوسی ختم ہوسکے ۔

اس محرومی کا خاتمہ صوبائی قیادت کے ہاتھوں میں ہے اور اس کے وسائل بھی حکومت کے پاس ہیں جس کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ صوبہ کی ترقی مستقبل کے ہونہاروں سے وابستہ ہے جتنی سرمایہ کاری ان پر کی جائے گی اتنے ہی بہترین نتائج برآمد ہونگے۔ امید ہے کہ صوبائی حکومت اس مسئلے کو فوری حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں میں خلل نہ پڑے۔