|

وقتِ اشاعت :   April 8 – 2019

بلوچستان ایک وسیع وعریض صوبہ ہے جس کی آبادی منتشر ہے یقیناًایسی صورت میں شہریوں کو سہولیات کی فراہمی ایک مشکل امر ہے مگر ناممکن نہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے بڑے شہروں کا جائزہ لیاجائے تو وہاں تمام شہری سہولیات دستیاب ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے وہاں کی آبادی اورجغرافیہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے روڈ میپ تیار کیاجاتا ہے جس میں ماہرین کو شامل کیاجاتا ہے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوسکیں۔

وہاں شہری زندگی اتنی تیز ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا جبکہ وہاں کے دیہی علاقے جہاں آبادی کا تناسب کم ہوتا ہے وہاں سب سے پہلے لوگوں کو آباد کیا جاتا ہے اور باہر سے بھی لوگوں کو ویزے جاری کرکے لیبر کی صورت میں بلایاجاتا ہے اور انہیں کارآمد بناتے ہوئے دیہی علاقوں کی ترقی کیلئے ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف شعبوں میں ان کی بھرتی عمل میں لائی جاتی ہے تاکہ شہری ودیہی زندگی گزارنے والے افراد میں کوئی خاص فرق نہ ہواورآج ان کی کامیابی کی مثال بہترین حکمرانی سے ہی منسوب کی جاتی ہے۔

ہمارے یہاں مغرب ودیگر ممالک کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں مگر ان کے طرز حکمرانی پر عمل نہیں کیاجاتا بدقسمتی سے یہاں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے ترقیاتی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں جبکہ ان اسکیموں کے ٹینڈرز سے لیکر ٹھیکہ تک من پسند افراد میں بانٹے جاتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام اسکیمیں کرپشن کی نذر ہوجاتی ہیں اور عوام تک اس کے ثمرات نہیں پہنچتے ۔یہ صورتحال پورے ملک کی ہے آج جتنے بھی منصوبوں میں کرپشن اور تاخیر کا مسئلہ سامنے آرہا ہے۔

اس کی بڑی وجہ سیاسی ہے جب تک سیاسی دباؤ اورمصلحت پسندی کوبالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلے نہیں کئے جائینگے کوئی بھی علاقہ ترقی نہیں کرے گا اور نہ ہی وہاں کے عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی ۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثال دینے کے ساتھ ساتھ اسی طرز کے قوانین بھی بنائیں جائیں تو مختصر عرصے کے دوران بڑی تبدیلی آئے گی۔ بلوچستان میں اب تک اربوں روپے مختلف منصوبوں پر خرچ کئے گئے مگر آج بھی یہاں کے عوام تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

بلوچستان کے بڑے شہروں کی صورتحال سے ہی دیہی علاقوں کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ وہاں کے لوگ کس طرح زندگی گزار رہے ہیں ۔ گزشتہ روز قلات میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ایک تقریب کے دوران کہاکہ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے بغیر عوام ترقیاتی سہولیات سے محروم رہینگے۔ 

اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا مگر اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ نچلی سطح پر موجود عوامی نمائندگان کو کسی ایم پی اے کے زیر اثر یا دباؤ میں رہ کر کام نہ لیاجائے کیونکہ ایم پی ایز اپنے حلقے میں کسی دوسرے کے اختیارات کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اپنے سیاسی مقاصد کے طور پر فنڈز کو استعمال میں لاتے ہیں جس کی مثال ماضی کے بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات سے لگایاجاسکتا ہے۔ 

جہاں تک ماضی میں بلوچستان کو ترقی کی مد میں ملنے والے روپوں کے صحیح استعمال نہ ہونے کی بات ہے تو اس کی وجہ بھی سیاسی ہے جنہوں نے اپنے مقاصد کیلئے ان پیسوں کا استعمال کیا اور آج بھی بعض ممبران یاتو حکومت پھر اپوزیشن بنچوں پر موجود ہیں جن کے خلاف کوئی کمیشن نہیں بنائی گئی تاکہ ان سے عوامی خزانے کو نقصان پہنچانے سے متعلق پوچھ گچھ کی جاسکے چونکہ وہ اتنے بااثر ہیں کہ حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی دباؤ اورمصلحت پسندی کا شکار ہوتے ہوئے ان پر ہاتھ نہیں ڈالاجاتا۔ 

بلوچستان کے شہری ودیہی علاقوں کی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے اسکیموں کو ایمانداری سے نہ صرف ٹینڈر کیاجائے بلکہ بہترین ماہرین کے ذریعے انہیں پورا کیاجائے جو کسی حکومتی واپوزیشن رکن کے زیر اثر نہ ہوتب جاکر بلوچستان میں تھوڑی بہت بہتری آسکتی ہے۔