|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2019

دہائیوں سے وفاقی اورصوبائی ادارے شجر کاری کی مہم بھر پور طریقے سے چلاتے آرہے ہیں۔مگراس شجر کاری کا ملک بھر میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا جتنا ہونا چائیے تھا۔ماضی میں یہ دیکھنے کو ملا کہ اخبارات اور میڈیا میں افسران اور حکمرانوں کی پبلسٹی ضرور ہوئی مگر متعلقہ حکام اس مہم کے بعد سب بھول گئے اور شجر شجر نہیں رہے ، دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر درخت سوکھ گئے اور یوں پوری محنت ضائع ہوگئی۔ 

کوئٹہ کی اہم شاہراہوں پر سینکڑوں درخت لگائے گئے مگر لگانے کے بعد محکمہ جنگلات کے پاس ایسا کوئی انتظام نہیں تھا کہ ان درختوں کی دیکھ بھال اور حفاطت کی جاتی، اس طرح حفاظت اور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ تمام درخت سوکھ گئے ، انکا نام و نشان ختم ہوگیا۔ درخت لگانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ماحولیات پر اثر ڈالا جائے اورماحول کو بہتر بنایا جائے تاکہ کوئٹہ شہر میں آلودگی کم ہو اور لوگ آلودگی سے بچے رہیں مگر درخت جڑ سے غائب ہوگئے۔ 

موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے جب فروری کے مہینے میں شجر کاری مہم کا افتتاح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 5 سالوں کے دوران 25 کروڑ درخت صوبہ بھر میں لگائے جائینگے ، اس مہم کی تشہیر بھی بہترانداز میں کی گئی، ملکی پرنٹ والیکٹرانک میڈیا نے اس حوالے سے رپورٹنگ بھی کی اور اس اقدام کو سراہا بھی گیا ۔لیکن دوسری طرف سب کچھ الٹ ہورہا ہے گزشتہ روز بلوچستان یونیورسٹی کے احاطہ میں 45کے قریب درختوں کو کاٹا گیا جس میں صنوبر کے درخت بھی شامل ہیں جن کی کٹائی ممنوع ہے ۔

ویسے درختوں کی کٹائی کا اقدام ہی غلط ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی کیلئے درخت لگانا انتہائی ضروری ہے بہرحال اس عمل کے خلاف محکمہ جنگلات نے وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی کے خلاف ایف آئی آر درج کرالی ہے جبکہ مزید قانونی چارہ جوئی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ۔مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اعلیٰ سرکاری تعلیمی ادارہ جسے شعوری درسگاہ کہاجاتا ہے وہاں اس طرح کا عمل پیش آئے تو عام لوگوں سے کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ درخت لگائیں گے بھی اور ان کی حفاظت بھی کرینگے۔ 

یونیورسٹی انتظامیہ کی اس غیر ذمہ دارانہ عمل کے خلاف حکومت کو سخت ایکشن لینا چاہئے اور وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی سے جواب طلب کرنا چائیے کہ جہاں حکومت کروڑوں درخت لگانے کیلئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہی ہے جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں اس کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔یقیناًیہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ عمل ہے انتظامیہ سمیت وائس چانسلر کے خلاف کارروائی ضروری ہے تاکہ پھر اس طرح کا اقدام نہ اٹھایا جائے۔

اب بات کی جائے کہ شجرکاری مہم کو کامیاب کس طرح بنایا جاسکتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ محکمہ جنگلات کے لیے افرادی قوت اور وسائل کو بڑھایاجائے تاکہ وہ صوبے میں درختوں کی وسیع پیمانے پر حفاظت اور نگہداشت کر سکے۔ محکمہ جنگلات کو صرف نام کی حد تک قائم نہ رکھا جائے ،محکمہ جنگلات کو سال میں ایک معمولی رقم بجٹ میں دی جاتی ہے جس سے وہ اسٹاف کی تنخواہیں ادا کرتا ہے اور چند ایک ضروریات پوری کرتا ہے۔

محکمہ جنگلات کا ہرگز یہ مطلب نہیں لینا چائیے کہ وہ بلوچستان میں ماحول کو یکسر بدل دے گا۔ اس لیے درخت لگانے سے پہلے ان کے لئے پانی کا انتظام بھر پور انداز میں ہونا چائیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جہاں جہاں پانی کا وافر ذخیرہ موجود ہو وہاں پر بلاک شجر کاری ہونی چائیے جیسا کہ دنیا کے دوسرے ممالک خصوصاً ایران اور بھارت میں ہورہا ہے ۔

جگہ جگہ بلاک شجر کاری کی جائے تاکہ کم سے کم افرادی قوت ، پانی اور دیگر وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔صرف درخت نہ لگائے جائیں بلکہ ان کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ شہر میں موجود سرکاری زمین پر بلاک شجر کاری کی جائے۔ اور کوئٹہ میں بھی بلاک شجر کاری کی جائے یہاں صرف کنکریٹ کے جنگل تعمیر نہ کیے جائیں۔