|

وقتِ اشاعت :   April 14 – 2019

کوئٹہ: کوئٹہ کی ہزارگنجی سبزی منڈی میں جمعہ کو ہونیوالے بم دھماکے کے خلاف ہزارہ قبیلے کے افراد کا احتجاج جاری ہے۔

سول سوسائٹی کے نمائندوں کے علاوہ خواتین اور بچوں نے بھی مغربی بائی پاس پر دو روز سے جاری دھرنے میں شرکت کی۔ سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے یکجہتی کا اظہار کیا۔ دھرنے کے شرکاء کا کہنا ہے کہ تحفظ نہ ملا تو بیواؤں اور یتیم بچوں کے ہمراہ اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کرینگے۔ 

تفصیل کے مطابق کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی کی سبزی منڈی میں جمعہ کی صبح بم دھماکے میں 20افراد کے جاں بحق ہونے والے اور 48 زخمی ہوگئے تھے۔ جاں بحق ہونیوالوں میں ہزارہ قبیلے کے دس افراد شامل تھے جن کی تدفین ہزارہ ٹاؤن میں کردی گئی۔ باقی افراد کو نواں کلی ، ہزارگنجی، پشتون آباد، سریاب اور شہر کے دیگر علاقوں کے آبائی قبرستانوں میں کی گئیں۔ 

دوسری جانب دھماکے کے 48 میں سے 28 زخمیوں کو طبی امداد دینے کے بعد ہسپتالوں سے فارغ کرکے گھر بھیج دیا گیا۔ 20 افراد بولان میڈیکل ہسپتال ، سول ہسپتال ، ایف سی اور سی ایم ایچ ہسپتال میں زیر علاج ہیں تاہم ان میں چار کی حالت تشویشناک ہے۔ واقعہ کے دوسرے روز بھی شہر کی فضاء سوگوار رہی۔ ہزارہ ٹاؤن اور مری کیمپ سے دیگر علاقوں میں جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔

دوسری جانب ہزار قبیلے کے افراد اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے واقعہ کے خلاف جمعہ کی دوپہر سے ہزارہ ٹاؤن کے قریب مغربی بائی پاس پر دھرنا دے رکھا ہے۔دھرنے کے شرکاء سے جمعہ کو بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء لانگو ، وزیر صحت نصیب اللہ مری اور وزیراعلیٰ کے مشیر برائے کھیل عبدالخالق ہزارہ کی قیادت میں حکومتی وفد نے مذاکرات کئے تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ 

شرکاء نے رات بھی مغربی بائی پاس پر خیمے لگا کر گزاری۔دھرنے میں ہزارہ قبیلے کے سیاسی و سماجی کارکنوں کے علاوہ خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی نصر اللہ زیرے، جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مولوی ولی محمد ترابی،سابق سینیٹرمہیم خان بلوچ سمیت مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی احتجاج میں شرکت کرکے یکجہتی کا اظہار کیا۔ 

احتجاج کے شرکاء کا کہنا تھا کہ پچھلی بار دھرنا آرمی چیف کی یقین دہانی پر ختم کیا گیا تھا مگر ایک بار پھر ہزارہ قبیلے کے افراد کو نشانہ بنانا شروع ہوگیا ہے۔ اس طرح کے واقعات سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ہزارہ سیاسی کارکنان کے رہنماء طاہر ہزارہ اور نادر ہزارہ کا کہنا تھا کہ سبزی منڈی بم دھماکے کے واقعہ کے بعد نئے سوالات نے جنم لیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم تحفظ جیسا بنیادی انسانی حق مانگ رہے ہیں جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہم روٹی، تعلیم اور نہ ہی صحت کی سہولت کا کوئی مطالبہ کررہے ہیں۔ہمیں صرف تحفظ کا مسئلہ درپیش ہے۔زرداری، نواز شریف کے دور میں بھی ہمارا قتل عام ہوتا رہا ہے۔ وزیراعظم اور وزراء ہمارے پاس آئے۔

پچھلی دفعہ آرمی چیف آئے اور یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ ہزارہ قبیلے کے افراد کا قتل عام نہیں ہوگا۔ کل کے واقعہ کے بعد نئے سوالات نے جنم لیا ہے ہمیں یقین ہے کہ وہ لوگ اب ضرور اس بات پر سوچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئے روز کشت و خون ہورہا ہے۔ بد قسمتی سے عالمی صورتحال میں بھی جنگی صورتحال کو آگے لے جارہا ہے ہمیں اس آگ کا ایندھن بنایا جارہا ہے۔

انہوں ے کہا کہ آئین میں تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست سے سوال بنتا ہے کہ وہ اس میں ناکام کیوں ہے۔کسی کی پشت پناہی کے بغیر دن دیہاڑی ایسی وارداتیں کیسے ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بلوچستان کے حالات درست نہیں ہوں گے اس وقت تک کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔

تمام جماعتوں کو دباؤ ڈالنا چاہیے کہ حقیقی نمائندوں کو اختیارات ملے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ تحفظ کا ہی ہے ،ہمیں جان کا تحفظ چاہیے اور حاکم کو حاکمیت کا تحفظ چاہیے۔ہم بنیادی انسانی حق تحفظ مانگ رہے ہیں۔ روزگار، تعلیم اور صحت نہیں مانگ رہے۔حقوق انسانی کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ کا میڈیا سے گفتگو کہنا تھا کہ وہ دہشت گردی کے واقعات کے خلاف کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ محنت کش طبقے کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر ہماری ماؤں کو بیوہ اور ہمارے بچوں کو یتیم کیا گیا۔ ہم دہشتگردی سہہ سہہ کر تھک گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گذشتہ سال ان واقعات کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی جس کے بعد فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے فی الفور کاروائی کی جائے گی۔ 

ایک سال تک ہم نے ریلیف محسوس کیا لیکن ہزار گنجی کے واقعے نے پورے سال کی کسر پوری کر دی ہے۔اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ وہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک ہزارہ خواتین اور بچوں کے ساتھ لانگ مارچ کریں گی جس کے لیے وہ اپنے عمائدین سے بات کریں گی۔’ہم دہشت گردی سے تنگ آ چکے ہیں۔

حکومت بے اختیار ہے ہم اس سے بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ہم یتیم بچوں اور بیواؤں کے ساتھ اسلام آباد تک پیدل جائیں گے اور پاکستان کی ہر گلی اور کوچے سے گزر کر یہ بتائیں گے کہ ہم کون ہیں اور ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟۔’