کوئٹہ: کوئٹہ کی ہزارگنجی سبزی منڈی میں جمعہ کو ہونیوالے بم دھماکے کیخلاف ہزارہ قبیلے کے افراد کا دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا مغربی بائی پاس پردیئے گئے دھرنے میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کے علاوہ خواتین اور بچوں نے بھی شرکت کی جبکہ اس موقع پرمختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے دھرنے کے شرکاء سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
اسماجی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے دہشتگردی کے واقعات پر از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کی کوئٹہ آمد کے منتظر ہیں کہ وہ یہاںآکر اس دھرنے میں شریک افراد کو دہشتگردی کے واقعات کے تدارک کو یقینی بنانے کی ضمانت دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہشتگردی سہہ سہہ کر تھک گئے ہیں۔
گذشتہ سال ان واقعات کے خلاف بھوک ہڑتال کی تھی جس کے بعد فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان واقعات کی روک تھام کے لیے فی الفور کاروائی کی جائے گی۔ ایک سال تک ہم نے ریلیف محسوس کیا لیکن ہزار گنجی کے واقعے نے پورے سال کی کسر پوری کر دی ہے۔انہوں نے ملک کے تمام دائیں بائیں بازوں کی جماعتوں کو دھرنے میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر از سر نو غور کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبات انسانوں کو انکے جینے کا حق دیا جائے۔ طاہر ہزار نے کہا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا احتجاج حکومت یا کسی ادارے کیخلاف نہیں ہے ہم تحفظ جیسا بنیادی انسانی حق مانگ رہے ہیں جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہم روٹی، تعلیم اور نہ ہی صحت کی سہولت کا کوئی مطالبہ کررہے ہیں۔ہمیں صرف تحفظ کا مسئلہ درپیش ہے۔
انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے عالمی صورتحال میں بھی جنگی صورتحال کو آگے لے جارہا ہے ہمیں اس آگ کا ایندھن بنایا جارہا ہے۔انہوں ے کہا کہ آئین میں تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جب تک بلوچستان کے حالات درست نہیں ہوں گے، ہمارا بنیادی مطالبہ تحفظ کا ہی ہے ،ہمیں جان کا تحفظ چاہیے اور حاکم کو حاکمیت کا تحفظ چاہیے۔ہم بنیادی انسانی حق تحفظ مانگ رہے ہیں، روزگار، تعلیم اور صحت نہیں مانگ رہے۔
ہمارا دھرنا کسی ادارے یا ریاست کے خلاف نہیں،جلیلہ حیدر
وقتِ اشاعت : April 15 – 2019