بلوچستان میں رواں سال اچھی خاصی بارشیں ہوئیں،ایک طرف ان بارشوں سے بلوچستان میں جاری قحط سالی کے خاتمے کی امید پیدا ہوگئی ہے تو دوسری ان سے نقصانات بھی زیادہ ہوئے ہیں۔
مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم موجود ہیں، جواب یقیناًنفی میں ہے ماسوائے ایک دومنصوبوں کے جن میں مانگی ڈیم اور کچھی کینال شامل ہیں لیکن یہ اب تک فعال نہیں ہیں شاید آگے چل کر مانگی ڈیم سے کوئٹہ میں موجود پانی بحران پر قابو پایاجاسکے مگر ضروری یہ ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں تمام دریاؤں پر ڈیم تعمیر کیے جائیں۔
یہ چھوٹے اور میڈیم سائز کے ڈیم ہوں، چیک ڈیم نہ ہوں کیونکہ دنیا بھر میں چیک ڈیم کا نظام مکمل ناکام ہوچکا ہے۔160چیک ڈیم سے زراعت کی ترقی نا ممکن ہے اس لئے صوبے میں سینکڑوں کی تعداد میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں جن سے زیادہ سے زیادہ زمین آباد کی جاسکتی ہے۔ سندھ سے زیادہ بلوچستان سے سیلابی پانی بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔
60لاکھ ایکڑفٹ سے زیادہ پانی سمندر میں گرتا ہے اگر ہم اس کا ایک حصہ بھی زراعت اور دوسری ضروریات کے لئے استعمال میں لائیں تو بلوچستان میں یہ انقلاب سے کم نہ ہوگا۔زراعت بلوچستان کی معیشت کی شہ رگ ہے۔ تقریباً اسی فیصد یا اس سے زائد آبادی کا انحصار زراعت اور زرعی پیداوار پر ہے۔ باقی تمام شعبے صرف بیس فیصد آبادی کی ضروریات پوری کرتے ہیں ان میں سرفہرست ماہی گیری ‘ گلہ بانی اور معدنیات ہیں ۔
بہرحال بلوچستان کی ترقی اور لوگوں کے خوشحالی کا تعلق زراعت کی ترقی پر ہے۔ بلوچستان میں تقریباً لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین کاشت کاری کے لئے موجود ہے لیکن اس کو آباد کرنے کے لئے پانی موجود نہیں۔ اس زمین کو آباد کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔
مگر بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بنیادی ڈھانچہ بنانے پر غور نہیں کیا اور جب تک ڈیم نہیں بنائیں جائیں گے پانی ضائع ہوتا رہے گا، اور یہ بارشیں رحمت کی بجائے زحمت اور آبادی کی جگہ تباہی کا سبب بنیں گی اگر ڈیم بنائے جائیں تو یقیناًنقصانات کم اور فوائد زیادہ ہوں گے ۔
بلوچستان نہ صرف غذائی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہوگا بلکہ یہ خطے کیلئے غذائی اجناس اور فروٹ باسکٹ بن سکتا ہے اور پورے خطے کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔یہاں زراعت کی ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں، صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی امداد حاصل کرے اور بلوچستان کو غذائی اجناس کے پیداوار میں خود کفیل بنائے۔
گزشتہ حکومتوں کے دوران زراعت کی ترقی کے بلند وبانگ دعوے کئے گئے مگر اس بنیادی مسئلہ پر توجہ نہیں دی گئی کہ کس طرح سے زراعت کے شعبے میں بہتری لائی جاسکتی ہے خاص کر پانی کے مسئلے کو سرے سے نظرانداز کیاگیا،نہ توچھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے منصوبے بنائے گئے اور نہ ہی کسی طرح کی پلاننگ کی گئی۔بلوچستان کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے مگربدقسمتی سے ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں رہی۔
اگر پنجاب اور دیگر صوبوں کو دیکھاجائے تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جس شعبہ سے زیادہ فائدہ اور ترقی مل رہی ہے تو اسی پر نہ صرف سرمایہ کاری کی جاتی ہے بلکہ طویل مدتی منصوبہ بندی کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں خواب زیادہ دکھائے جاتے ہیں اور کام نہیں کیا جاتا، جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔موجودہ صوبائی حکومت چھوٹے اور میڈیم سائز ڈیموں کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرے تاکہ بارشوں کا پانی ضائع نہ ہواور صوبے میں زراعت کے شعبے کوترقی دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو آنے والے قحط سے بچایا جاسکے اور پانی بحران کا مسئلہ بھی مستقل بنیادوں پر حل ہوسکے۔