گزشتہ پندرہ سالوں سے ملک جہاں چیلنجز اور بحرانات کا سامنا کررہا ہے اسی طرح بلوچستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے، دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے یہاں کے لوگوں نے بہت زیادہ جانی ومالی نقصانات اٹھائے ہیں ۔
ہزارہ کمیونٹی کو متعدد بار دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ، کوئٹہ شہر ان کیلئے غیر محفوظ ہوکر رہ گیاہے ۔اگرچہ گزشتہ چار سالوں کے دوران حالات میں کافی بہتری آئی ہے البتہ اس دوران ایک دو واقعات رونما ہوئے جن میں ہزار گنجی کاحالیہ خود کش دھماکہ بھی شامل ہے جس میں 21 افراد شہید جبکہ 40 سے زائدزخمی ہوئے ان میں ہزارہ کمیونٹی کے 8 افراد سمیت دیگر شہری اور سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں ۔
اس واقعہ کے خلاف ہزارہ کمیونٹی ایک بار پھر سراپااحتجاج بن گئی اور مغربی بائی پاس پر چار روز تک دھرنا دیئے رکھا۔ بالآخر پیر کی شب وفاقی وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سمیت دیگر صوبائی حکام نے ان سے بات چیت کی اور انہیں ہر قسم کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی، ہزارہ کمیونٹی نے بلوچستان کی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے میڑھ کی صورت میں جانے والے وفد سے کامیاب مذاکرات کیں۔
وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد امن کا پیغام پہنچانا ہے،ہزارہ کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے،دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی فورسز دن رات محنت کر رہی ہیں،ہم آپ کو کسی بھی جگہ تنہا نہیں چھوڑیں گے، ہم یہاں سیاست کرنے نہیں آئے بلکہ آپ کا دکھ بانٹنے آئے ہیں، آپ کے جائز مطالبات پرعملی اقدامات کرینگے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اس شہر اور صوبے کو محفوظ بنائیں ، قیام امن کے لیے بے شمار قربانیاں دی گئیں ہیں بلوچستان ہمارا گھر ہے اور گھر والوں کے غم سے بڑھ کر کوئی غم نہیں ہوتا، قیام امن کے لیے اس طرح کی سنجیدگی ماضی میں نہیں ملتی جو موجودہ حکومت دکھا رہی ہے ،ہزارہ کمیونٹی ، اس شہر اور صوبے نے بہت مشکل حالات دیکھے ہیں،ہزارہ کمیونٹی کے تمام مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہزارہ کمیونٹی پر جب بھی دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں بلوچستان کی قوم پرست اور سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ کھڑی رہی ہیں جو مطالبہ ہزارہ کمیونٹی اپنے دھرنے کے دوران کرتی آرہی ہے یہی باتیں یہاں کی سیاسی جماعتیں بھی کرتی ہیں کہ بلوچستان سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ ہماری روایات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بلوچستان میں بسنے والے اقوام ہمیشہ آپس میں شیروشکر ہوکر رہتے رہے ہیں مگر ایک سازش کے تحت ان کے درمیان نفرتیں پھیلائی جارہی ہیں خاص کر فرقہ واریت کے ذریعے مگر یہاں کے قبائلی معتبرین نے ہمیشہ اس طرح کی تفریق کی حوصلہ شکنی کی ہے جس کی مثال اندرون بلوچستان دیکھا جاسکتا ہے جہاں کبھی بھی فرقہ واریت کے نام پر دہشت گردی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا بلکہ تمام فرقوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اب اس طرح کی سازشوں کو روکنے اور دہشت گردی جیسے واقعات کی روک تھام کیلئے بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلتے ہوئے شدت پسندی کے خاتمے کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا ۔ وفاقی حکومت کو اس اہم معاملے پر بھی غور کرنا ہوگا کہ بلوچستان میں موجود لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو کیمپوں میں رکھا جائے اور ان کی نقل وحرکت پر کڑی نگرانی رکھی جائے،اور جتنی جلد ممکن ہو ان کی باعزت واپسی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں ۔
اس عمل سے امن وامان کی صورتحال میں یقیناًکافی بہتری آئے گی ، نیز افغان مہاجرین سے متعلق کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیاجائے کیونکہ ان مہاجرین کا پچاس فیصد سے بھی زیادہ بوجھ اہل بلوچستان نے اٹھا رکھا ہے اور وہ سب سے زیادہ متاثر ہیں لہذا ان کی آواز سنی جائے اور ان کے تحفظات دور کیے جائیں ۔