|

وقتِ اشاعت :   April 27 – 2019

پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر بھر پور کوششیں جاری ہیں اس کے لیے بڑے پیمانے پر فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ پولیو کے خاتمے کی مہم پاکستان میں بھی تواتر سے جاری ہے تاکہ اس مرض سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑائی جا سکے کیونکہ اس مرض سے بچے عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں کچھ عناصر اس مہم کے حوالے سے مختلف منفی پروپیگنڈوں کے ذریعے غلط فہمیاں پھیلانے میں مصروف ہیں اور تو اورپولیو ورکرز کو قاتلانہ حملوں میں ہلاک بھی کردیتے ہیں، گزشتہ روز اسی طرح کا واقعہ چمن میں پیش آیا جس میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون پولیو ورکر جاں بحق جبکہ دوسری زخمی ہوگئی۔ واقعہ چمن شہر سے تقریباً چھ کلومیٹر کے فاصلے پر سلطان زئی کے علاقے میں اس وقت پیش آیاجب دوخواتین پولیوورکرز بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے گئی تھیں۔

چمن افغانستان سے متصل سرحدی علاقہ ہے اور یہ ضلع قلعہ عبداللہ کا ہیڈ کوارٹر ہے جہاں پولیو وائرس کی موجودگی کے باعث قلعہ عبداللہ کا شمار پولیو کے حوالے سے ہائی رسک علاقوں میں ہوتاہے جہاں بدھ کو حالیہ پولیو مہم کا چوتھا روز تھا۔بلوچستان کے دیگر اضلاع میں تین روزہ پولیو مہم گزشتہ روز ختم ہوئی تھی جبکہ قلعہ عبد اللہ، پشین اور کوئٹہ سمیت دیگر ہائی رسک اضلاع میں مہم پانچ روز تک چلائی گئی۔بلوچستان میں رواں سال کے دوران پولیو ورکز پر یہ پہلا حملہ ہے جبکہ اس سے قبل ماضی میں کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں پولیو ورکرز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔

گزشتہ برس کوئٹہ کے علاقے ہزارگنجی میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ایک خاتون پولیو ورکر اور ان کی بیٹی ہلاک ہوئی تھیں۔2015 میں کوئٹہ شہر میں پولیو مہم کے دوران سیٹلائیٹ ٹاؤن میں ایک خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں پولیو ورکرز محفوظ رہے تھے تاہم ان کی سیکورٹی پر مامور 15 اہلکار شہید ہوگئے تھے جن میں زیادہ تر کا تعلق پولیس سے تھا۔2014 میں بھی ایک پولیو مہم کے دوران پولیو کارکنوں پر حملہ کیا گیا تھا جس میں تین خواتین سمیت چار پولیو ورکرز جاں بحق ہوگئیں تھیں۔

مجموعی طور پر بلوچستان میں ان حملوں میں اب تک 10 سے زیادہ پولیو ورکرزجاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔دوسری جانب صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں پولیس نے پولیو مہم کے حوالے سے افواہیں پھیلانے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں 12 افراد کے خلاف ابتدائی اطلاعی رپورٹ درج کر کے ایک شخص کو گرفتار کر لیا۔

ایف آئی آر مجرمانہ سازش کرنے، کارِ سرکار میں مداخلت، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، عوام کو ڈرانے دھمکانے اور خوف زدہ کرنے، لوگوں کو بلوے پر اکسانے، بلوہ کرنا، غیر قانونی ہجوم اکھٹا کرنا، ہتھیار رکھنے، لوگوں کی نقل و حرکت محدود کرنے اور جانوروں کو نقصان پہنچانے کی دفعات کے تحت درج کی گئی ہے۔

پشاور کے مضافاتی علاقے بڈھ بیر میں پیر کو سینکڑوں افراد نے مہم کے دوران بچوں کی ہلاکت اور طبیعت خراب ہونے کی افواہوں پر مشتعل ہو کر بنیادی صحت کے ایک مرکز پر دھاوا بول کر وہاں توڑ پھوڑ کی اور اس کے کچھ حصوں کو آگ لگا دی۔ اس واقعے کے بعد پشاور شہر میں یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ بچوں کو زائد المعیاد قطرے پلائے گئے ہیں جس پر ویکسین پینے والے سینکڑوں والدین نے بچوں کو لے کر ہسپتالوں کا رخ کیامگر اس ڈرامہ کا ڈراپ سین اس وقت ہوا جب سوشل میڈیا پرایک ویڈیو وائرل ہوگئی جس میں ایک شخص بچوں کوبے ہوش ہونے کا ڈرامہ رچا رہا تھا اور بچے بھی ڈرامائی انداز میں بے ہوش ہورہے تھے۔

ایسے عناصر کسی طرح بھی رعایت کے مستحق نہیں جو ملک کے کمسن بچوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ پاکستان پولیو کے حوالے سے آج بھی ہائی رسک ممالک میں شامل ہے اور اس کا مقابلہ پورے ملک کے عوام کو کرنا ہے تاکہ بچوں کا مستقبل محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک پولیو سے پاک ہوجائے جس کا فائدہ عوام کو ہی ہوگا۔