قیمتوں پر کنٹرول، اشیائے ضرورت کی فراوانی اور ان کے معیار پر کبھی اور کسی دور میں بھی توجہ نہیں دی گئی خصوصاً بلوچستان میں جنگل کا قانون رائج ہے۔ جعلی اشیاء کے انبار تقریباً ہر دکان اور اسٹور میں وافر مقدار میں دستیاب ہیں وجہ یہ ہے کہ کمپنی کی اشیاء پر منافع کی شرح دس سے بیس فیصد تک ہے جبکہ جعلی اشیاء میں منافع کی شرح 70سے لے کر80 فیصد ہے۔ زیادہ منافع کے لالچ میں دکاندار جعلی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔
سالوں میں ایک آدھ دکاندار یا جعلی اشیاء تیار کرنے کی فیکٹری پکڑی جاتی ہے۔ عوام کوعلم ہی نہیں ہوتا کہ جعلی اشیاء تیار کرنے والوں کا کیا بنا، ورنہ کسی کو سزا ہوجائے اور عوام الناس کو کانوں کان خبر نہ ہو اور لوگ لا علم رہیں یہ نا ممکن سی بات لگتی ہے۔ حکومت کاکام صرف اور صرف عوام کی خدمت کرنا ہے۔ سب سے پہلے بلا کسی امتیاز کے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ضروری ہے چاہے وہ حکومتی پالیسیوں کے حامی ہوں یا مخالف، اس کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت حکومت اور حکومتی اداروں کا فرض ہے۔ اس کے بعد حکومت کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے۔
اس میں عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کے علاوہ معیاری اشیاء کی تیاری اور لوگوں تک مناسب داموں پر رسائی ضروری ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومت اپنے فرائض سے غافل لگتی ہے صرف ماہ رمضان میں ایک مجسٹریٹ اور چند پولیس اہلکار حرکت میں نظر آتے ہیں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی رمضان کے پہلے چند روز تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جائے اور مہینے کے بقیہ دنوں میں لوٹ مار کی کھلی اجازت دی جائے۔
مہنگائی کا طوفان ایک تسلسل سے جاری ہے اور اس میں کمی کے آثار نہیں آتے کیونکہ اس سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات انتہائی ناقص ہیں بلکہ اس کی غلط پالیسیوں کی بدولت ہی مہنگائی تواتر سے بڑھ رہی ہے۔
بلوچستان میں تو ویسے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں، یہاں کوئی بھی غیر ملکی غیر قانونی طورپر آکر کسی بھی قسم کا کاروبار بلا کسی روک ٹوک کے شروع کرسکتا ہے، کسی بھی وقت جعلی اشیاء تیار کر سکتا ہے دکان لگا کر اسے فروخت کر سکتا ہے اور دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹ سکتا ہے، اگر پکڑا گیا تو رشوت دے کر چھوٹ جاتا ہے اور دوبارہ اپنا جعلی کاروبار شروع کر سکتا ہے، مختصراً بلوچستان میں بڑے پیمانے پر جعلی اشیاء تیارکر کے فروخت کی جاتی ہیں۔
اس سارے عمل کو روکنے کیلئے حکومت اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائے تاکہ ایسی منفی سرگرمیوں کو روکا جاسکے اگر حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گی تو اس میں صوبہ کا ہی فائدہ ہوگا، روزگار کے بے تحاشے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ غربت کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔
امید ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مؤثر پالیسی بناتے ہوئے سرکاری نرخناموں پراشیاءِ خورد ونوش کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے گی تاکہ عوام کو سستی اور معیاری اشیاء فراہم ہوسکیں۔