|

وقتِ اشاعت :   May 2 – 2019

یکم مئی کو دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایاگیا۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھرمیں مزدور تنظیموں کی جانب سے جلوس نکالے گئے اور مزدوروں کے بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد کا اعادہ کیا گیا۔یہ دن شہدائے شکاگو کی یادمیں منایا جاتا ہے۔ پاکستان بھر میں بھی مزدور تنظیمیں اس دن کو اس جذبے کے ساتھ مناتی ہیں کہ وہ مزدوروں کے بنیادی حقوق کی حفاطت کریں گی اور ان تمام قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی جو ان کا استحصال کررہی ہیں۔

سوویت یونین کے دوران روس مزدوروں کے حقوق کا زبردست ریاستی علمبردار تھا اب بھی دنیا کے بعض ممالک مزدوروں کے حقوق کے ریاستی علمبردار ہیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ حقوق دلانے کی جدوجہد میں پیش پیش ہیں۔ پاکستان میں مزدوروں کی تحریک کافی طاقتور اور مقبول ہے یہاں بھی مزدور انجمنیں بڑی بڑی ریلیاں نکالتی ہیں اوربڑے بڑے جلوسوں کی قیادت مزدور رہنماء کرتے ہیں وہ جلسوں میں تقاریر کرتے ہیں اور عوام کے سامنے اپنے پالیسی کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ہردور میں کسی نہ کسی طرح تاجروں اور صنعت کاروں کی حکومت رہی ہے جو اپنی ہی برادری کے مفادات کی نگرانی کرتی رہی ہے ان کا مزدوروں کے حقوق اور ان کی جدوجہد سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔ ماضی کی حکومتوں نے مزدوروں کے لئے کوئی پیکج نہیں دیا، نہ غربت اور بے روزگاری کم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔ یہی وجہ ہے کہ صنعت کاروں کی حکومتوں کے باعث عوام خاص کر مزدوروں کے درمیان بڑا فاصلہ پیدا ہوگیا ہے۔

اس کی وجہ زبردست استحصال ہے کیونکہ مخصوص مفادات کے لوگوں نے اقتدار پرقبضہ کررکھا تھا اور حالات کو اس نہج تک پہنچایاگیا کہ مزدور طبقہ نان شبینہ سے محروم ہوکر رہ گئے ہیں۔ملک میں ایسے کتنے دلخراش واقعات رونما ہوتے ہیں جہاں بے کس و مجبور لوگ معاشی بدحالی کی وجہ سے اپنے بچوں سمیت خود کشی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔وجہ صاف ہے کہ غربت اور بیروزگاری مسلسل ان کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔

ان کے حالات سدھارنے پر کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی، یہی حکمران عوام کے درمیان تب دکھائی دیئے جب وہ نااہل قرار دیئے گئے چونکہ یہاں ان کا ذاتی مفاد رہا ہے۔ کوئی ایک مثال دی جائے کہ مزدوروں کے تحفظ اور غربت کے خاتمے کیلئے صنعت کار نما حکمرانوں نے کوئی بہترین پالیسی بنائی بلکہ انہوں نے اپنے حلقہ احباب کو مزید استحصال کرنے کی چھوٹ دے رکھی تھی۔

آج بھی مزدور طبقہ معاشی بدحالی کا شکار ہے،حکمران قرضے لیتے رہے اور اس کا بوجھ انہی مزدوروں کے کاندھوں پر لادھ کر رکھ دیا جبکہ اپنی صنعتوں کو وسعت دیتے رہے، نجی صنعتوں میں مزدوروں کی اجرت انتہائی کم ہے،یہ مزدور اور ان کے بچے غذائی کمی کا شکار ہیں، انہیں گوشت کھانے کو سال میں ایک بار شاید عیدقربان کے موقع پر ملتی ہے۔ یہ بچوں کی تعلیم، صحت سمیت دیگر ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔

اس کی وجہ سرمایہ داروں کا استحصال ہے جو مزدوروں سے لیبر قوانین کے خلاف ڈیوٹی بھی لیتے ہیں اور اوور ٹائم بھی نہیں دیتے۔ اس استحصالی طبقہ کے خلاف کبھی بھی کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ ماضی کے حکمرانوں کے لاڈلے ہی صنعتوں کے مالک رہے ہیں صاف بات ہے کہ کس طرح سے وہ ان کے خلاف ایکشن لینگے جو انہیں الیکشن کے دوران مالی معاونت سمیت دیگر مراعات دیتے ہیں بلکہ بعض صنعتوں میں پارٹنر شپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس بار پی ٹی آئی کی حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ بر سر اقتدار آئی ہے لیکن اس حکومت کے پہلے آٹھ ماہ ہی عوام اور مزدور طبقے پر بہت بھاری گزرے ہیں کیونکہ مہنگائی کا ایک طوفان ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔بہرحال اس تبدیلی حکومت پر زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مزدور طبقہ کے استحصال کو روکنے کیلئے مؤثر قانون سازی کرے اور ان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ مزدور ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے اگر انہیں سہولیات فراہم کی جائیں تو یقینا ملک میں تبدیلی آئے گی۔