ای سی سی کے اجلاس میں پیٹرول کی قیمت 108 روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔وزیراعظم کے نئے مشیر خزانہ ڈاکٹرعبد الحفیظ شیخ کی زیرصدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں پٹرول کی قیمت فی لیٹر ایک سو آٹھ روپے کرنے کی منظوری دی گئی۔
اوگرا نے پٹرول 14 روپے 37 پیسے فی لیٹر مہنگا کرنے کی سفارش کی تھی، ای سی سی نے ڈیزل فی لیٹر چار روپے 89 پیسے مہنگا کرنے کی منظوری دے دی، لائٹ ڈیزل کی قیمت میں چھ روپے 40 پیسے فی لیٹر اضافے کی منظوری دے دی گئی۔ لائٹ ڈیزل کی نئی قیمت 86 روپے 94 پیسے فی لیٹر ہوگی۔مٹی کے تیل کی قیمت میں سات روپے 46 پیسے فی لیٹر اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔
وزیر اعظم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ ای سی سی کو بھیجا تھا۔سابق وزیرخزانہ اسد عمر کے استعفے کے بعد اقتصادی رابطہ کمیٹی کا یہ پہلا اجلاس تھا۔نئی حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ یقینا عام لوگوں کیلئے مشکلات کا باعث بنے گی کیونکہ جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس کے ساتھ ہی اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ دیگر ضرورت اشیاء کی قیمتوں کو بھی بڑھایاجاتا ہے یہ تمام تر بوجھ غریب عوام کوہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
روزمرہ استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں کو دکاندار کرایہ کے اضافے کے مطابق بڑھائینگے جو عوام سے وصول کیاجائے گا، رمضان کو بھی چند دن رہ گئے ہیں اور ان دنوں ویسے ہی گرانفروش عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے،عام غریب کیلئے یہ رمضان انتہائی بھاری گزرے گا۔
کیونکہ مہنگائی کی نسبت تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیاجاتا اگر سرکاری سطح پر اعلان کیاجاتا ہے اور اس کا اعلامیہ جاری بھی ہوتا ہے مگر اس پر عملدرآمد کیلئے حکومتی کردار نہ ہونے کے برابر ہے، مزدور طبقہ اس بوجھ کو کئی دہائیوں سے برداشت کرتا آرہا ہے،لیکن اب حالات عوامی برداشت سے باہر نکلتے جارہے ہیں جو کسی بھی وقت لاوا بن کر پھٹ سکتا ہے۔
موجودہ حکومت کی غیر سنجیدہ بیانات بھی عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں جس طرح گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے ایک اہم ذمہ دار شخص نے کہاکہ اگر پیٹرول فی لیٹر 200 روپے بھی ہوجائے تو عوام کچھ نہیں کرے گی بلکہ برداشت کرلے گی۔ اس بیان سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے ذمہ داران عوامی پریشانی کو کس قدر سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
اس سے قبل جب پی ٹی آئی اپوزیشن میں تھی تو موجودہ وزیراعظم عمران خان نے عوامی اجتماعات میں کھلے لفظوں میں عوام کو یہ کہاتھا کہ وہ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بجلی اور گیس کے بل ادا نہ کریں، وہ خود اس قدر جذبات میں آگئے تھے کہ اپنابجلی کا بل جلا دیا تھا اور عوام کو ایسا کرنے کی تلقین کی تھی۔
اس کے علاوہ اپنے ایجنڈے میں نئے پاکستان کی بنانے کی بات کی تھی جس میں عام لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کادعویٰ کیا گیا تھا جب اقتدار پی ٹی آئی کے حصہ میں آئی تو وہی باتیں آج وزیراعظم عمران خان دہرا رہے ہیں جوسابقہ حکمران کہتے رہے ہیں کہ کمزور معیشت ہمیں وراثت میں ملی ہے،گزشتہ حکومتوں نے قرضہ لیکر ملک کو مقروض بنادیا ہے اب اسے بہتر کرنے میں وقت درکار ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ آئی ایم ایف سے تمام حکمران جماعتوں نے اپنے دور میں رجوع کیا اور قرضے لئے اب آئی ایم ایف کے شرائط کو پورا کرنا بھی ضروری ہے تو لہٰذا قرضوں کا سود عوام کے جیبوں سے ہی لیا جائے گا۔
حکومت کا یہ دعویٰ بھی اب تک پورا نہیں ہوا کہ بیرون ملک منتقل کئے گئے پیسوں کو واپس لائینگے کیونکہ یہ عوام کے پیسے ہیں جنہیں چوری کرکے منتقل کیا گیا ہے جس پر کوئی پیشرفت دکھائی نہیں دے رہی حسب روایت عوام سے ہی وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک میں ابترمعاشی پالیسیوں اور طرز حکمرانی نے آج عوام کا دیوالیہ نکال کر رکھ دیا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں حکمران عوامی مفادات کے تحت پالیسی بناتے ہیں مگر ہمارے یہاں بالکل الٹ نظام ہے۔ یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ جب دیگر ممالک میں پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر چیزوں پر غیر ضروری ٹیکس یا اضافہ کیا جاتا ہے تو وہاں عوام سڑکوں پر نکل آتی ہے اور پورے نظام کو جام کرتی ہے کیونکہ وہ حکمرانوں کو اپنے مفادات کے تحت اقتدار میں لاتے ہیں اس لئے وہ اپنے حکمرانوں کو جوابدہ بھی بناتے ہیں اور مجبوراََ حکمران اضافی ٹیکس اور قیمتوں میں اضافے کے فیصلوں سے اجتناب کرتے ہیں۔
حکومت سے صرف یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ غریب عوام کو ریلیف دیں، ان کے تبدیلی کے خوابوں کو چکنا چور نہ کریں۔ بہترین معاشی منصوبہ بندی کرتے ہوئے قرضوں سے جان چھڑانے کیلئے میکنزم تیار کریں اور اپنے زرمبادلہ میں اضافہ کے ساتھ وسائل کو بروئے کار لائیں تاکہ عالمی منڈی تک رسائی حاسل کی جاسکے جس سے معیشت میں بہتری سمیت عوام کو ریلیف ملے گا اور باربار پیٹرول ڈرون حملوں کا خاتمہ ہوگا۔