گزشتہ چنددنوں سے خیبرپختونخواہ سے ڈاکٹرز کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں ہڑتال کی خبریں آرہی ہیں یہ صرف پہلی بار ایک صوبہ کے مرکزی شہر میں نہیں ہورہا بلکہ ملک کے تمام صوبوں کے مرکزی شہروں کی صورتحال یہی ہے۔ذرائع ابلاغ کے فرائض میں شامل ہے کہ معاشرے کے حقائق کو عوام تک صحیح معنوں میں پہنچائے کسی بھی زیادتی کی حمایت نہ کرتے ہوئے حقیقی صورتحال کی منظر کشی کرے۔
سب سے پہلے خیبرپختونخواہ میں ڈاکٹروں کے احتجاج کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ آخر کیونکر یہ ہڑتال کی جارہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پشاور کے بڑے ہسپتال میں احتجاج اور وزیر صحت اور ان کے گارڈکی طرف سے ایک ڈاکٹر پرتشدد کے واقعات پر دونوں جانب سے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔جمعرات کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں احتجاج پر بیٹھے ڈاکٹروں کے اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ہسپتالوں کا بائیکاٹ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کر لیے جاتے،میڈیا رپورٹس کے مطابق بظاہر تو اس مسئلے کی وجہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں وزیر صحت ہشام انعام اللہ اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الدین کے درمیان تلخ کلامی یا وزیر کا ڈاکٹر کے احتجاج کے طریقے پر غصہ ہونا تھا جس سے بات تشدد تک پہنچی اور سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو اور تصویریں ایسی وائرل ہوگئیں کہ دیگر میڈیا بھی اس کی کوریج اپنے اپنے طریقوں سے کرنے لگے۔
خیبر پختونخوا میں ڈاکٹر صحت کے شعبے میں کیے گئے بڑے فیصلوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کو ایم ٹی آئی یعنی میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوٹ کا نظام قبول نہیں ہے۔ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا پہلا مطالبہ تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر ایم ٹی آئی کے بارے میں جو انکوائری ہوئی ہے اس پر عمل درآمد کیا جائے ساتھ ہی انہوں نے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کے احکامات کی نشاندہی کی ہے کہ سابق چیف جسٹس نے کہاتھا انہیں کوئی اصلاحات نظر نہیں آ رہیں۔دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت اب تمام اضلاع کے ہسپتالوں میں نئے قانون کے نام پر نجکاری کر رہی ہے اور وہ ہسپتالوں کی نجکاری نہیں چاہتے کیونکہ ایم ٹی آئی کے نام پر ہسپتالوں میں غریبوں کے لیے علاج مہنگا کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے بنیادی سہولیات جیسے ایکسرے اور دیگر ٹیسٹ مفت ہو تے تھے لیکن اب ہر ٹیسٹ اور ایکسرے کی فیس لی جاتی ہے،یہی نظام اب دیگر شہروں میں نئے قانون کے تحت لایا جا رہا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس قانون کو کیونکر پوشیدہ رکھا جا رہا ہے۔ جب ڈاکٹر مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ قانون پبلک کے سامنے لایا جائے تو ایسا نہیں کیا جاتا جس سے ان میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کا یہ مطالبہ کہ جو اصلاحات لائی جارہی ہیں اسے پبلک کیاجائے، بالکل جائز ہے۔ دوسرا یہ کہ اندرون صوبہ ہسپتالوں میں سہولیات دستیاب نہیں توپھر کیوں ڈاکٹروں کا ان علاقوں میں تبادلہ کیاجارہا ہے۔ اس اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کی اس فیصلے کا اختیار حکومت کو ہے کیونکہ سرکاری ہسپتال ڈاکٹروں کے نجی ادارے نہیں کہ وہ سرکاری معاملات میں برائے راست مداخلت کریں البتہ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جتنے بھی ہسپتال ہیں وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں کیونکہ دور دراز سے آنے والے غریب عوام کو اس کافائدہ پہنچے گا۔
دوسری جانب یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ڈاکٹر ان شہروں میں تعینات ہوں گے جہاں کا ان کا ڈومیسائل ہے اور اس سلسلے میں بڑی تعداد میں ڈاکٹروں کے تبادلے کر بھی دیے گئے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ڈاکٹر حکومت کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں جس پر ینگ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے، ڈاکٹر ہر جگہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ وہاں اس متعلقہ شعبے کی تمام سہولیات موجود ہوں۔اگر ایک دل کی بیماری کے سرجن کو کسی ضلعی ہسپتال میں تعینات کر دیں اور وہاں اس شعبے کی سہولت ہی نہ ہو تو ڈاکٹر وہاں جا کر کیا کرے گا۔
اگر ان شہروں میں متعلقہ ڈاکٹروں کے لیے بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں تو ڈاکٹر کیوں ان شہروں میں نہیں جائیں گے۔دوسری جانب حکومت نے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ ہوا، دیگر عملے کی بھی تعیناتی ہوئی اور ان کے لیے مراعات میں بھی اضافہ کیا گیا اور اب بھی حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن صحت کے شعبے میں اصلاحات ضرور ہوں گی، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر ڈاکٹروں کو کوئی مشکلات درپیش ہیں اور ان کے کوئی مطالبات ہیں تو حکومت ان پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے۔
حکومت کا ڈاکٹروں کے تبادلوں سے متعلق کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کے یہ تبادلے کم سے کم دو برسوں کے لیے ہیں اور جہاں متعلقہ شعبے کی سہولیات دستیاب نہیں ہوں گی تو وہاں ان ڈاکٹروں کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا۔اس فیصلے کا مقصد انتہائی واضح ہے تمام ماہر ڈاکٹر پشاور اور ایک آدھ دوسرے شہر میں تعینات ہیں جبکہ تیس کے لگ بھگ اضلاع میں ڈاکٹر جانے کو تیار نہیں ہیں۔حکومت کے مطابق ان تمام اضلاع میں صحت کی تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں اور ڈاکٹروں سے بھی درخواست ہے کہ وہ ان علاقوں میں جا کر انسانیت کی خدمت کریں۔
بہرحال ریاست کے ماتحت اداروں میں حکومت اصلاحات کا مکمل حق رکھتی ہے جو عوامی مفاد کے تحت ہوں۔ اگر یہ معاملہ تشدد کی وجہ سے طول لے رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام کو عذاب میں مبتلا کرکے ہسپتالوں کا بائیکاٹ کیاجائے، اس حوالے سے کمیشن بٹھائی جائے تاکہ شفاف طریقے سے اس کا فیصلہ ہوجائے جوقصور وار ٹہرے گا اس کے خلاف بلاتفریق کارروائی قانونی طور پر عمل میں لائی جائے۔
البتہ ڈاکٹروں کا یہ احتجاج صرف خیبرپختونخواہ کا مسئلہ نہیں بلکہ آئے روز ملک کے دیگر صوبوں میں بھی چھوٹے چھوٹے مسائل پر ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں کا بائیکاٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں جس کا برائے راست اثر غریب عوام پر پڑتا ہے، ڈاکٹروں کے اولین فرائض میں انسانیت کی خدمت کرنا ہے جنہیں معاشرے میں مسیحا کا درجہ دیا جاتا ہے مگر افسوس کہ ہمارے یہاں بیشتر ڈاکٹرکاروباری نظرآتے ہیں۔
خیبر پختونخواہ میں ینگ ڈاکٹرز کا یہ مطالبہ کہ اصلاحات کو پبلک کیاجائے تو حکومت اسے ضرور کرے مگر ڈاکٹر سرکار کے ماتحت ہیں ناکہ سرکار سے بالاتر ہیں وہ بھاری بھرکم تنخواہ حکومتی خزانہ سے لیتے ہیں جو کہ عوام کا پیسہ ہوتا ہے،اگر ڈاکٹروں نے بائیکاٹ کرنا ہے تو سب سے پہلے اپنے نجی ہسپتالوں میں مکمل ہڑتال کریں،سرکاری تنخواہ احتجاجاََ نہ لیں جو حقیقی احتجاج سمجھی جائے گی وگرنہ یہ صرف ایک طبقہ کے مفادات کے تحفظ کی جنگ سمجھی جائے گی۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران جس طرح سے ملک بھر میں ڈاکٹروں کا رویہ دکھائی دے رہاہے وہ انتہائی جارحانہ ہے، گزشتہ چند ماہ کے دوران سندھ اور بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹر احتجاج پر تھے کبھی تشددتو کبھی مراعات کے حوالے سے ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں کاتو مکمل بائیکاٹ کرتے ہیں مگر اپنے نجی کلینک میں وقت کی پابندی کے ساتھ ڈیوٹی دیتے ہیں جوکہ کوئٹہ کے بڑے نجی ہسپتالوں میں دیکھا گیا ہے۔
اس لئے ضروری ہے کہ حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات لاتے ہوئے آئے روز کے احتجاج سے عوام کو چھٹکارا دلائے، ان کے بہتر مفاد میں قانون سازی کرے تاکہ ڈاکٹروں کو بھی اس سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔البتہ اصلاحات اب ناگزیر ہوچکی ہیں لہٰذا اس پر مرکزی حکومت جلدازجلد کام کرکے تمام صوبوں میں اس کو لاگو کرے تاکہ عوام کو سستے علاج کی سہولت مل سکے۔